وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا
اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو ان کے کسی قصور کے بغیر دکھ پہنچاتے ہیں تو انہوں [٩٨] نے بہتان اور صریح گناہ کا بار اٹھا لیا۔
اہل ایمان کو بھی اذیت پہنچانا بہت بڑی برائی ہے اور اس کا گناہ بھی بہت بڑا ہے اس لئے اس ایذا رسانی کے بارے میں فرمایا : ﴿وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا﴾ ” اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام کی وجہ سے ایذا دیں جو انہوں نے نہ کیا۔“ یعنی ان کے کسی ایسے جرم کے بغیر، جو ان کو اذیت دینے کا موجب ہو ﴿ فَقَدِ احْتَمَلُوا ﴾ تو ایذا دینے والوں نے اپنی پیٹھ پر اٹھایا ﴿ بُهْتَانًا﴾ ” بہت بڑا بہتان“ کیونکہ انہوں نے کسی سبب کے بغیر اہل ایمان کو اذیت پہنچائی ﴿وَإِثْمًا مُّبِينًا﴾ ” اور واضح گناہ (کا بوجھ اٹھایا) ‘‘ کیونکہ انہوں نے اہل ایمان پر زیادتی کی اور انہوں نے اس حرمت کی ہتک کی جس کے احترام کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا، اس لئے عام اہل ایمان کو سب و شتم کرنا، ان کے احوال اور مرتبے کے مطابق، موجب تعزیر ہے۔ صحابہ کرام کو سب و شتم کرنے والے کے لئے اس سے بڑھ کر تعزیر ہے۔ اہل علم اور متدین حضرات کو سب وشتم کرنے والا عام لوگوں کو سب و شتم کرنے والے سے بڑھ کر تعزیر اور سزا کا مستحق ہے۔