تُرْجِي مَن تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاءُ ۖ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَا آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَلِيمًا
آپ جس بیوی کو چاہیں علیحدہ رکھیں اور جسے چاہیں اپنے پاس رکھیں اور علیحدہ رکھنے کے بعد جسے چاہیں اپنے پاس بلائیں آپ پر کوئی مضائقہ نہیں [٨١]۔ اس طرح زیادہ توقع ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ غمزدہ نہ ہوں [٨٢] اور جو کچھ بھی آپ انھیں دیں اسی پر خوش رہیں اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے اللہ جانتا [٨٣] ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور بردباد ہے۔
نیز یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رحمت اور آپ کے لئے وسعت ہے کہ آپ کو اپنی ازواج مطہرات کی باریوں کی تقسیم کے ترک کرنے کو مباح فرمایا۔ اگر آپ ان کی باریاں مقرر کرتے ہیں تو یہ آپ کی نوازش ہے۔ اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اواج مطہرات کے درمیان ہر چیز تقسیم کر رکھی تھی۔ آپ فرمایا کرتے تھے :” اے اللہ ! یہ میری تقسیم ہے جو میرے بس میں ہے اور جو میرے بس میں نہیں (اے اللہ !) اس پر مجھے ملامت نہ کرنا۔“ [سنن ابی داؤد، النکاح، باب فی القسم بین النساء، ج 2134 امام البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے مرسل ہونے کو راجح قرار دیتے ہوئے اسے ضعیف کہا ہے لیکن اس کا پہلا جملہ (یقسم بیننا فیعدل) دوسری حسن حدیث سے ثابت ہے اور دوسرا اپنے معنی و مفہوم کے لحاظ سے درست ہے۔ جبکہ حماد بن سلمہ نے اس حدیث کو موصولاً بیان کیا ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیں الارواء 7؍81حدیث نمبر 2018 ] یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿تُرْجِي مَن تَشَاءُ مِنْهُنَّ﴾ اپنی ازواج مطہرات میں سے جس کو چاہیں الگ رکھیں، اس کو اپنے پاس بلائیں نہ اس کے پاس رات بسر کریں۔ ﴿وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاءُ﴾ اور جس کو چاہیں اپنے پاس بلائیں اور اس کے ہاں رات بسر کریں۔ ﴿وَ﴾ ” اور“ اس کے باوجود یہ امر متعین نہیں ﴿مَنِ ابْتَغَيْتَ﴾ جس کو چاہو اپنے پاس بلا لو ﴿فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ﴾ ” تو آپ پر کوئی مضائقہ نہیں۔“ معنی یہ ہے کہ آپ کو مکمل اختیار ہے۔ بہت سے مفسرین کی رائے یہ ہے کہ یہ حکم ان عورتوں کے بارے میں خاص ہے جو اپنے آپ کو ہبہ کریں کہ آپ کو اختیار ہے جسے چاہیں الگ رکھیں اور جسے چاہیں بلا کر اپنے پاس رکھیں، یعنی اگر آپ چاہیں تو اس عورت کو قبول کرلیں جس نے خود کو آپ کے لئے ہبہ کردیا اور اگر آپ چاہیں تو قبول نہ کریں۔ واللہ اعلم پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی حکمت واضح کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ذٰلِكَ﴾ ” یہ“ یعنی یہ وسعت، تمام معاملے کا آپ کے اختیار میں ہونا اور اس معاملے میں آپ کا ان عورتوں پر کوئی عنایت اور نوازش کرنا ﴿أَدْنَىٰ أَن تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَا آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ﴾ ” اس میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ غم ناک نہ ہوں اور آپ جو کچھ ان کو دیں اسے لے کر وہ سب خوش رہیں“ کیونکہ انہیں علم ہوگا کہ آپ نے کسی واجب کو ترک کیا ہے نہ کسی واجب حق کی ادائیگی میں کوتاہی کی ہے۔ ﴿ وَاللّٰـهُ يَعْلَمُ مَا فِي قُلُوبِكُمْ﴾ ” اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے اللہ جانتا ہے۔“ حقوق واجبہ و مستحبہ کی ادائیگی اور حقوق میں مزاحمت کے وقت دلوں میں جو خیال گزرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے۔ اس لئے اے اللہ کے رسول ! آپ کے لئے یہ وسعت مشروع کی گئی ہے تاکہ آپ کی ازواج کا دل مطمئن رہے۔ ﴿وَكَانَ اللّٰـهُ عَلِيمًا حَلِيمًا﴾ اور اللہ تعالیٰ وسیع علم اور کثیر حلم والا ہے۔ یہ اس کا علم ہی ہے کہ اس نے تمہارے لئے وہ چیز مشروع کی ہے جو تمہارے معاملات کے لئے درست اور تمہارے اجر میں اضافہ کرنے کی باعث ہے اور یہ اس کا حلم ہے کہ تم سے جو کو تاہیاں صادر ہوئیں اور تمہارے دلوں نے جس برائی پر اصرار کیا، اس نے اس پر تمہاری گرفت نہیں فرمائی۔