يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا ۖ فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا
اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر انھیں چھونے سے پیشتر طلاق دے دو تو تمہارے لئے ان [٧٧] پر کوئی عدت نہیں جس کے پورا ہونے کا تم مطالبہ کرسکو۔ لہٰذا (اسی وقت) انھیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقہ سے رخصت کردو۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کو آگاہ فرماتا ہے کہ جب وہ مومن عورتوں کے ساتھ نکاح کریں، پھر ان کو چھوئے بغیر طلاق دے دیں تو اس صورت میں مطلقہ عورتوں پر کوئی عدت نہیں، مگر اللہ مردوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس صورت میں بھی ان کو کچھ متاع دیں جو ان کی اس دل شکنی کا ازالہ کرے جو انہیں طلاق کی وجہ سے لاحق ہوئی ہے، نیز انہیں حکم دیتا ہے کہ وہ کسی مخاصمت، گالی گلوچ اور کسی مطالبہ وغیرہ کے بغیر اچھے طریقے سے ان کو علیحدہ کریں۔ اس آیت مبارکہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ طلاق صرف نکاح کے بعد ہوتی ہے اگر کوئی شخص نکاح سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی کو طلاق دے دے یا طلاق کو نکاح پر معلق کر دے، تو یہ طلاق واقع نہیں ہوگی، اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ﴾ ” جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ان کو طلاق دے دو۔“ یہاں اللہ تعالیٰ نے طلاق کو نکاح کے بعد مقرر فرمایا ہے۔ پس یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ نکاح سے قبل طلاق کا کوئی مقام نہیں، چونکہ طلاق ایک مکمل جدائی اور مکمل تحریم ہے اس لئے نکاح سے قبل واقع نہیں ہوسکتی۔ جب یہ بات ہے تو ظہار یا ایلا وغیرہ کا، جو کہ تحریم ناقص ہے، نکاح سے قبل واقع نہ ہونا تو زیادہ اولیٰ ہے جیسا کہ اہل علم کی صحیح ترین رائے ہے۔ یہ آیت کریمہ طلاق کے جواز پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کی طلاق کے بارے میں خبر دی، اس پر ان کو کوئی ملامت کی نہ ان پر کوئی گرفت کی، حالانکہ آیت کریمہ اہل ایمان سے خطاب کے ساتھ صادر ہوئی ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ بیوی کو چھوئے بغیر طلاق دی جاسکتی ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت میں فرمایا : ﴿لَّا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ﴾ (البقرۃ:2؍236) ” تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم اپنی بیویوں کو چھوئے بغیر طلاق دے دو۔ “ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلیل ہے کہ اگر عورت کو دخول سے قبل طلاق دے دی جائے تو اس پر مجرد طلاق کی بنا پر عدت واجب نہیں ہوتی، اس کے لئے دوسرا نکاح کرنا جائز ہے، کیونکہ کوئی مانع موجود نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ دخول اور چھونے کے بعد طلاق دینے سے عدت واجب ہوجاتی ہے۔ کیا ” دخول“ اور ” چھونے“ سے مراد و فقط مجامعت ہے۔ جیسا کہ اس پر تو اجماع ہے؟ یا خلوت کا بھی یہی حکم ہے خواہ اس میں مجامعت نہ ہوئی ہوجیسا کہ خلفائے راشدین کا فتویٰ ہے اور یہی صحیح ہے۔ جب بیوی کے ساتھ خلوت حاصل ہوگئی خواہ اس خلوت میں مجامعت ہوئی یا نہ ہوئی مجرد اس خلوت کی بنا پر عدت واجب ہوگی۔ [خلوت کا معتبر قرار دینے کا مذہب جمہور علماء کا ہے اور راجح بھی یہی ہے جیسا کہ مؤلف نے وضاحت کی ہے۔ لیکن اس بات کا خیال رہے کہ خلوت ہوئی اور پھر مشاجرت ہوئی لیکن کسی یقینی ذریعے سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مجامعت نہیں ہوئی تو عدت نہیں ہوگی۔] اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر چھونے سے قبل عورت کو طلاق دے دی جائے، تو خوش حال خاوند پر اس کی حیثیت کے مطابق اور تنگ دست خاوند پر اس کی حیثیت کے مطابق اس مطلقہ بیوی کو ” متاع“ دینا واجب ہے مگر یہ اس صورت میں ہے جب مہر مقرر نہ کیا گیا ہو اور اگر مہر مقرر کردیا گیا ہو اور چھونے سے قبل بیوی کو طلاق دے دی گئی ہو تو نصف مہر کی ادائیگی واجب ہے، تب یہ مہر ” متاع“ کے بدل میں بھی کفایت کرتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ جو کوئی اپنی بیوی کو دخول سے قبل یا بعد میں طلاق دیتا ہے تو اس کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ نہایت اچھے اور بھلے طریقے سے طلاق دے کہ دونوں ایک دوسرے کی تعریف کریں۔ اگر دونوں ایک دوسرے میں جرح و قدح کریں اور ایک دوسرے میں کیڑے نکالیں تو یہ جدائی ” بھلے طریقے“ سے جدائی نہیں ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی مستنبط ہوتا ہے کہ عدت خاوند کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ﴿ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ﴾” تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت نہیں ہے۔“ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے کہ اگر خلوت کے بعد طلاق دی ہوتی تو خاوند کے حق میں عورت پر عدت واجب تھی۔ آیت کریمہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر مفارقت خاوند کی وفات کے باعث ہو تو وہ مطلق طور پر عدت گزارے گی۔ جیسا کہ آیت کریمہ ﴿ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ﴾ ” پھر تم ان کو طلاق دو۔“ سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ اس بیوی کے علاوہ جس کے ساتھ خلوت نہ ہوئی ہو، دیگر بیویوں پر عدت واجب ہے، خواہ ان کے درمیان خاوند کی موت کی وجہ سے مفارقت ہوئی ہو یا اس کی زندگی میں کسی وجہ سے مفارقت ہوئی ہو۔