يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا
اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح [٤٥] نہیں ہو۔ اگر تم اللہ سے ڈرتی ہو تو (کسی نامحرم سے) دبی زبان [٤٦] سے بات نہ کرو، ورنہ جس شخص کے دل میں روگ ہے وہ کوئی غلط توقع لگا بیٹھے گا لہٰذا صاف سیدھی بات کرو
﴿ يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ ﴾ ” اے نبی کی بیویو !“ یہ تمام ازواج مطہرات سے خطاب ہے۔ ﴿ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ ﴾ ” تم عام عورتوں کی مانند نہیں ہو، اگر تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو“ کیونکہ اس طرح تمہیں تمام عورتوں پر فوقیت حاصل ہوگی اور کوئی عورت تمہارے درجے کو نہیں پہنچ سکے گی۔ پس ازواج رسول نے تقویٰ کی اس کے تمام وسائل اور مقاصد کے ساتھ تکمیل کی، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے تمام حرام وسائل کو منقطع کرنے میں ان کی راہنمائی فرمائی اور فرمایا : ﴿ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ ﴾ ” پس تم نزاکت کے ساتھ بات نہ کرو۔“ یعنی مردوں کے ساتھ مخاطب ہوتے ہوئے یا اس وقت کہ لوگ تمہاری گفتگو سن رہے ہوں اور تم دھیمے لہجے اور رغبت دلانے والی نرم کلامی سے گفتگو کرو تو ہوسکتا ہے کہ تمہاری طرف مائل ہوجائے ﴿ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ ﴾ ” وہ شخص جس کے دل میں روگ ہے۔“ یعنی شہوت زنا کا مرض۔ بے شک ایسا شخص تیار رہتا ہے اور کسی ادنیٰ سے محرک کا منتظر رہتا ہے جو اس کو متحرک کر دے کیونکہ اس کا قلب صحت مند نہیں اور صحتمند قلب میں کسی ایسی چیز کی شہوت نہیں ہوتی جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہو۔ اس کے قلب کے صحت مند اور مرض سے سلامت ہونے کی وجہ سے اسباب گناہ اسے حرام شہوت کے لئے متحرک کرسکتے ہیں نہ اسے اس کی طرف مائل کرسکتے ہیں، بخلاف اس قلب کے جو مریض ہے۔ وہ اس چیز کا متحمل نہیں ہوسکتا جس کا متحمل ایک صحت مند قلب ہوسکتا ہے، وہ اس چیز پر صبر نہیں کرسکتا جس پر ایک صحت مند صبر کرسکتا ہے، لہٰذا اگر ایک ادنی سا سبب بھی اسے حرام کی طرف دعوت دے تو وہ اس کی دعوت پر لبیک کہے گا اور اس کی نافرمانی نہیں کرے گا۔ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ وسائل کے احکام بھی وہی ہیں جو مقاصد کے احکام ہیں کیونکہ دھیمے لہجے میں بات کرنا اور نرم کلامی، اصل میں مباح ہیں چونکہ اس قسم کی نرم کلامی حرام کردہ امر کے لئے وسیلہ بن سکتی ہے اس لئے اس سے روک دیا گیا، اس لئے عورت کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ مردوں سے مخاطب ہوتے وقت نرم لہجے میں بات نہ کرے۔ چونکہ انہیں نرم لہجے میں بات کرنے سے روکا گیا ہے اس لئے بسا اوقات یہ وہم لاحق ہوسکتا ہے کہ انہیں درشت کلامی کا حکم ہے چنانچہ اس وہم کو اس ارشاد کے ذریعے سے دور کیا گیا ہے : ﴿وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا ﴾ ” اور دستور کے مطابق بات کیا کرو۔“ یعنی جس طرح دھیما پن اور نرم کلامی نہیں ہونی چاہئے اسی طرح درشت لہجے اور بداخلاقی پر مشتمل کلام بھی نہیں ہونا چاہئے۔ غور کیجیے کیسے ارشاد فرمایا : ﴿ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ ﴾ ” نزاکت کے ساتھ بات نہ کرو۔“ اور یہ نہیں کہا : فلا تلن بالقول ” بات کرنے میں نرمی نہ کرو۔“ یعنی نرم کلامی سے منع نہیں کیا بلکہ ایسی نرم کلامی ممنوع ہے جس میں مرد کے لئے عورت کی اطاعت اور اس کے انکسار کی جھلک ہو۔ اطاعت مند اور جھکنے والے کے بارے میں کسی قسم کا طمع کیا جاسکتا ہے بخلاف اس شخص کے جو کوئی ایسے نرم لہجے میں بات کرتا ہے، جس میں اطاعت اور جھکاؤ کی جھلک نہیں ہوتی بلکہ اس میں ترفع اور مدمقابل کے لئے سختی ہوتی ہے تو اس شخص کے بارے میں مدمقابل کوئی طمع نہیں کرسکتا،(ورنہ نرمی تو مطلوب ہے) اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نرم مزاجی کی مدح کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰـهِ لِنتَ لَهُمْ ﴾ (آل عمران :3؍159) ” پس اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ ان کے لئے نرم مزاج واقع ہوئے ہیں۔“ حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام سے فرمایا : ﴿ اذْهَبَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىٰ فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ ﴾ (طٰہٰ:20؍43۔44)” تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہوگیا ہے۔ اس کے ساتھ نرمی سے بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت پکڑے یا ڈر جائے۔ “ اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد : ﴿ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ ﴾ ” تو جس کے دل میں روگ ہے وہ کوئی برا خیال کرے“ اور اس کے ساتھ ساتھ اس کا شرمگاہ کی حفاظت کا حکم دینا، شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مردوں اور عورتوں کی مدح و ثنا اور اس کا زنا کے قریب جانے سے منع کرنا یہ سب کچھ دلالت کرتا ہے کہ بندے کے لئے مناسب یہ ہے کہ جب وہ اپنے نفس کو اس حالت میں دیکھے کہ وہ کسی حرام فعل کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے یا کسی محبوب ہستی کا کلام سن کر خوش ہوتا ہے اور اپنے اندر طمع کے داعیے کو حرام کی طرف رخ کرتے ہوئے پاتا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ یہ مرض ہے۔ وہ اس مرض کو کمزور کرنے، ردی خیالات کا قلع قمع کرنے، اس خطرناک مرض سے نفس کو محفوظ کرنے کی پوری جدوجہد کرے اور اللہ تعالیٰ سے حفاظت اور توفیق کا سوال کرتا رہے۔ یہ بھی شرم گاہ کی حفاظت کے زمرے میں آتا ہے جس کا حکم دیا گیا ہے۔