لِّيَجْزِيَ اللَّهُ الصَّادِقِينَ بِصِدْقِهِمْ وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ إِن شَاءَ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
(یہ سب کچھ اس لئے ہے) تاکہ اللہ تعالیٰ سچے لوگوں کو ان کے سچ کی جزا دے اور منافقوں کو اگر چاہے تو عذاب دے یا پھر ان کی توبہ قبول کرے۔ اللہ تعالیٰ یقیناً معاف کردینے والا اور رحم کرنے والا ہے
﴿ لِّيَجْزِيَ اللّٰـهُ الصَّادِقِينَ بِصِدْقِهِمْ﴾ ” تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کا بدلہ دے“ یعنی ان کے اقوال، احوال اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کے معاملے میں ان کے صدق اور ان کے ظاہر و باطن کے یکساں ہونے کے سبب سے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ هـٰذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ﴾ (المائدۃ: 5؍119) ” آج وہ دن ہے کہ سچوں کو ان کی سچائی فائدہ دے گی، ان کے لیے جنتیں ہیں، جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، جہاں وہ ابدالآباد تک رہیں گے۔“ یعنی ہم نے یہ آزمائشیں، مصائب اور زلزلے اپنے اندازے کے مطابق مقدر کیے تاکہ سچا جھوٹے سے واضح ہوجائے اور اللہ تبارک و تعالیٰ راست بازوں کو ان کی راستی کی جزا دے ﴿ وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ ﴾ ”اور منافقوں کو عذاب دے“ جن کے دل اور اعمال آزمائشوں کے نازل ہونے پر بدل گئے اور وہ اس عہد کو پورا نہ کرسکے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا تھا۔ ﴿ إِن شَاءَ ﴾ اگر اللہ تعالیٰ ان کو عذاب دینا چاہے گا، یعنی وہ ان کو ہدایت دینا نہ چاہے گا، بلکہ اسے علم ہے کہ ان کے اندر کوئی بھلائی نہیں اس لیے وہ ان کو توفیق سے نہیں نوازے گا۔ ﴿ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ﴾ یعنی وہ ان کو توبہ اور انابت کی توفیق سے نواز دے گا۔ اس کریم کی کرم نوازی پر یہی چیز غالب ہے، اس لیے اس نے آیت کریمہ کو اپنے ان دو اسمائے حسنیٰ پر ختم کیا ہے جو اس کی مغفرت، اس کے فضل و کرم اور احسان پر دلالت کرتے ہیں۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴾ ” بے شک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔“ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے جب توبہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو بخش دیتا ہے، خواہ ان کے گناہ کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں ﴿ رَّحِيمًا ﴾ وہ ان پر نہایت مہربان ہے، کیونکہ اس نے ان کو توبہ کی توفیق بخشی پھر ان کی توبہ قبول کی پھر ان کے ان گناہوں کی پردہ پوشی کی جن کا انہوں نے ارتکاب کیا تھا۔