لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا
(مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول (کی ذات) میں بہترین نمونہ [٢٩] ہے، جو بھی اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو [٣٠] اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہو۔
﴿ لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ﴾ ” یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عمدہ نمونہ )موجود( ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنفس نفیس جنگ میں شریک ہوئے، جنگی معرکوں میں حصہ لیا، آپ صاحب شرف و کمال، بطل جلیل اور صاحب شجاعت و بسالت تھے تب تم ایسے معاملے میں شریک ہونے میں بخل سے کام لیتے ہو جس میں رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنفس نفیس شریک ہیں۔ لہٰذا اس معاملے میں اور دیگر معاملات میں آپ کی پیروی کرو۔ اس آیت کریمہ سے اہل اصول نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افعال کے حجت ہونے پر استدلال کیا ہے۔ اصول یہ ہے کہ احکام میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حجت ہے، جب تک کسی حکم پر دلیل شرعی قائم نہ ہوجائے کہ یہ صرف آپ کے لیے مخصوص ہے۔ اسوہ کی دو اقسام ہیں : اسوۂ حسنہ اور اسوۂ سیئہ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اسوۂ حسنہ ہے۔ آپ کے اسوہ کی اقتدا کرنے والا اس راستے پر گامزن ہے جو اللہ تعالیٰ کے اکرام و تکریم کے گھر تک پہنچاتا ہے اور وہ ہے صراط مستقیم۔ رہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کسی دیگر ہستی کا اسوہ، تو اس صورت میں اگر وہ آپ کے اسوہ کے خلاف ہے تو یہ ” اسوۃ سیئہ“ ہے مثلاً جب انبیاء و رسل مشرکین کو اپنے اسوہ کی پیروی کی دعوت دیتے تو وہ جواب میں کہتے : ﴿ إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَىٰ آثَارِهِم مُّهْتَدُونَ ﴾(الزخرف : 43؍22) ” بلاشبہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو ایک طریقے پر پایا ہے، ہم انہی کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں۔“ اسوۂ حسنہ کی صرف وہی لوگ پیروی کرتے ہیں جن کو اس کی توفیق بخشی گئی ہے، جو اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور یوم آخرت کی امید رکھتے ہیں کیونکہ ان کا سرمایۂ ایمان، اللہ تعالیٰ کا خوف، اس کے ثواب کی امید اور اس کے عذاب کا ڈر انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ کی پیروی کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔