وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِم مِّنْ أَقْطَارِهَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لَآتَوْهَا وَمَا تَلَبَّثُوا بِهَا إِلَّا يَسِيرًا
اور اگر کفار کے لشکر اطراف مدینہ سے ان پر چڑھ آتے اور انھیں فتنہ کی دعوت دیتے تو یہ منافق فوراً مان لیتے اور اس میں کچھ زیادہ [١٩] دیر نہ کرتے
﴿ وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِم ﴾ ” اور اگر ان پر داخل کیے جائیں )لشکر( “ مدینہ منورہ میں ﴿ مِّنْ أَقْطَارِهَا ﴾ یعنی شہر کے ہر طرف سے کافر گھس آتے اور اس پر قابض ہوجاتے۔ ﴿ ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ ﴾ پھر ان کو فتنے کی طرف بلایا جاتا، یعنی دین سے پھر جانے اور فاتحین اور غالب لشکر کے دین کی طرف لوٹنے کی دعوت دی جاتی ﴿ لَآتَوْهَا ﴾ تو یہ جلدی سے اس فتنے میں پڑجاتے ﴿ وَمَا تَلَبَّثُوا بِهَا إِلَّا يَسِيرًا ﴾ ” اور اس کے لیے بہت کم ٹھہرتے۔“ یعنی دین کے بارے میں ان کے اندر قوت اور سخت جانی نہیں ہے، بلکہ اگر صرف دشمن کا پلڑا بھاری ہوجائے، تو دشمن ان سے جو مطالبہ کرے یہ مان جائیں گے اور ان کے کفر کی موافقت کرنے لگ جائیں گے۔ یہ ان کا حال ہے۔