سورة السجدة - آیت 27

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاءَ إِلَى الْأَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا تَأْكُلُ مِنْهُ أَنْعَامُهُمْ وَأَنفُسُهُمْ ۖ أَفَلَا يُبْصِرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ہم پانی کو بنجر زمین کی طرف بہا لاتے ہیں جس سے ہم کھیتی پیدا کرتے ہیں تو اس سے ان کے چوپائے بھی کھاتے ہیں اور وہ خود بھی کھاتے ہیں۔ پھر کیا یہ غور [٢٩] نہیں کرتے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ أَوَلَمْ يَرَوْا﴾ کیا انہوں نے اپنی کھلی آنکھوں کے ساتھ ہماری نعمت اور ہماری حکمت کاملہ کا مشاہدہ نہیں کیا؟ ﴿ نَسُوقُ الْمَاءَ إِلَى الْأَرْضِ الْجُرُزِ﴾ ” ہم بنجر زمین کی طرف پانی رواں کرتے ہیں۔“ یعنی اس زمین کی طرف جو بے آب و گیاہ ہے اللہ تعالیٰ بارش کو لاتا ہے جو اس سے قبل موجود نہ تھی وہ اس زمین پر بادل برساتا ہے یا دریاؤں سے اسے سیراب کرتا ہے۔ ﴿ فَنُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا﴾ پس ہم اس پانی کے ذریعے سے مختلف انواع کی نباتات اگاتے ہیں ﴿ تَأْكُلُ مِنْهُ أَنْعَامُهُمْ﴾ ” جس میں سے ان کے چوپائے کھاتے ہیں۔“ اس سے مراد مویشیوں کا چارہ ہے ﴿ وَأَنفُسُهُمْ﴾ ” اور وہ خود بھی“ اس سے مراد آدمیوں کا کھانا ہے۔ ﴿ أَفَلَا يُبْصِرُونَ﴾ کیا وہ اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو دیکھتے نہیں جس کے ذریعے سے اس نے زمین اور بندوں کو زندگی بخشی؟ اگر وہ دیکھتے تو انہیں صاف نظر آتا اور اس بصارت اور بصیرت کے ذریعے سے صراط مستقیم کی طرف رہنمائی حاصل کرتے، مگر ان پر اندھا پن غالب اور غفلت چھائی ہوئی ہے، لہٰذا انہوں نے اس بارے میں عقل مند کی طرح نہیں دیکھا۔ بس انہوں نے اس کو غفلت کی نظر سے اور محض عادت کے طور پر دیکھا، اس لیے انہیں بھلائی کی توفیق نہیں ملی۔