وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
ہم انھیں (قیامت کے) بڑے عذاب سے پہلے ہلکے عذاب کا مزا بھی ضرور چکھائیں گے شاید وہ (اپنی روش سے) باز آجائیں
ہم رسول کی تکذیب کرنے والے فاسقوں کو نمونے کے طور پر کم تر عذاب کا مزا چکھائیں گے اور وہ برزخ کا عذاب ہے۔ پس ہم برزخ کے عذاب کا کچھ مزا ان کے مرنے سے پہلے انہیں چکھائیں گے اس سے مراد قتل وغیرہ کا عذاب ہے، جیسے غزوہ بدر میں مشرکین کو قتل کیا گیا یا اس سے مراد موت کے وقت کا عذاب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں اس کا ذکر آتا ہے : ﴿ وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَكُمُ ۖ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ﴾ (الانعام : 6؍93) ” اور کاش آپ دیکھتے، جب یہ ظالم موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے عذاب کے لیے ان کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے، (اور کہہ رہے ہوں گے) نکالو اپنی جانیں، آج تمہیں رسوا کن عذاب کی سزا دی جائے گی۔ “ پھر برزخ میں ان کا یہ کم تر عذاب مکمل ہوجائے گا۔ یہ آیت کریمہ عذاب قبر کے واضح دلائل میں شمار ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ﴾ اور ہم انہیں قریب کے کم تر عذاب میں سے چکھائیں گے یعنی اس عذاب کا کچھ حصہ، لہٰذا یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ ” عذاب اکبر“ یعنی جہنم کے عذاب سے پہلے بھی ان کو عذاب ادنیٰ میں مبتلا کیا جائے گا۔ چونکہ عذاب ادنیٰ کا مزا جو انہیں دنیا میں چکھایا جائے گا، بسا اوقات اس سے موت واقع نہیں ہوتی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ انہیں عذاب ادنیٰ کا مزا اس لیے چکھاتا ہے تاکہ یہ لوگ اس کی طرف رجوع کریں اور اپنے گناہوں سے توبہ کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴾ )الروم : 30؍41) ”بحر و بر میں فساد برپا ہوگیا لوگوں کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے، تاکہ وہ ان کو مزا چکھائے ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ لوٹ آئیں۔ “