وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا وَلَٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ
اور اگر ہم چاہتے تو (پہلے ہی) ہر شخص کو ہدایت دے [١٤] دیتے لیکن میری بات پوری ہو کے رہی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے [١٥] بھر دوں گا۔
اور یہ سب اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر ہے کہ وہ ان کے اور کفر و معاصی کے درمیان سے نکل گیا۔ بنا بریں فرمایا : ﴿ وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا ﴾ ” اور اگر ہم چاہتے تو ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے۔“ یعنی ہم تمام لوگوں کو ہدایت سے نواز کر ہدایت پر جمع کردیتے۔ ہماری مشیت ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے مگر ہماری حکمت یہ نہیں چاہتی کہ تمام لوگ ہدایت پر جمع ہوں، اسی لیے فرمایا : ﴿ وَلَـٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي ﴾ ” لیکن میری یہ بات بالکل حق ہوچکی ہے۔“ یعنی میرا حکم واجب ہوگیا اور اس طرح ثابت ہوگیا کہ اس میں تغیر کا کوئی گزر نہیں۔ ﴿لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ﴾ ” کہ میں دوزخ کو جنوں اور انسانوں سے بھردوں گا۔“ یہ وعدہ ضرور پورا ہوگا جس سے کوئی مفر نہیں۔ اس کے اسباب، یعنی کفر و معاصی ضرور متحقق ہوں گے۔