وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُءُوسِهِمْ عِندَ رَبِّهِمْ رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ
کاش آپ دیکھیں جب مجرم اپنے پروردگار کے حضور سرجھکائے کھڑے ہوں گے (اور کہیں گے) ''اے ہمارے رب! ہم نے (سب کچھ) دیکھ لیا اور سن لیا لہٰذا ہمیں واپس بھیج دے کہ ہم اچھے عمل کریں [١٣]۔ اب ہمیں یقین آگیا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قیامت کے روز ان کے اپنی طرف لوٹنے کے بارے میں ذکر کرنے کے بعد، اپنے حضور ان کی حاضری کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الْمُجْرِمُونَ ﴾ ” اور اگر آپ دیکھیں، جب کہ گناہ گار“ جنہوں نے بڑے بڑے گناہوں پر اصرار کیا ﴿نَاكِسُو رُءُوسِهِمْ﴾ خشوع و خضوع اور انکساری کے ساتھ سرنگوں ہوکر، اپنے جرائم کا اقرار کرتے ہوئے، واپس لوٹائے جانے کی درخواست کرکے عرض کریں گے : ﴿ رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا ﴾ ” اے ہمارے رب ! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا۔“ یعنی تمام معاملہ ہمارے سامنے واضح ہوگیا ہم نے اسے عیاں طور پر دیکھ لیا اور ہمارے لیے عین الیقین بن گیا۔ ﴿ فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ ﴾ ” ہم کو (دنیا میں) واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں بلاشبہ ہم یقین کرنے والے ہیں۔“ یعنی جن حقائق کو ہم جھٹلایا کرتے تھے اب ہمیں ان کا یقین آگیا ہے، تو آپ بہت برا معاملہ، ہولناک حالات، خائب و خاسر لوگ اور نامقبول دعائیں دیکھیں گے، کیونکہ مہلت کا وقت تو گزر چکا۔