أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۚ بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ
کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ اس (نبی) نے اس (قرآن) کو خود ہی گھڑ لیا ہے (بات یوں نہیں) بلکہ یہ آپ کے پروردگار [١۔ الف] کی طرف سے حق ہے۔ تاکہ آپ اس قوم کو ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا [٢]۔ شاید وہ ہدایت [٣] پاجائیں
مذکورہ بالا باتوں میں سے ہر ایک بات بہت بڑا جرم ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے قول ” اس کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھڑا ہے۔“ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ بَلْ هُوَ الْحَقُّ ﴾ ” بلکہ یہ حق ہے“ جس کے سامنے سے باطل آسکتا ہے نہ پیچھے سے۔ یہ کتاب کریم قابل تعریف اور دانا ہستی کی طرف سے نازل کردہ ہے ﴿ مِن رَّبِّكَ ﴾ ” آپ کے رب کی طرف سے۔“ جس نے اسے اپنے بندوں پر رحمت کے طور پر نازل کیا ہے ﴿لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ﴾ ” تاکہ آپ ان لوگوں کو ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے ڈرانے متنبہ کرنے والا نہیں آیا۔“ یعنی رسول کے بھیجے جانے اور کتاب کے نازل کیے جانے کی انہیں سخت ضرورت ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔۔۔ بلکہ یہ لوگ اپنی جہالت میں سرگرداں اور اپنی گمراہی کے اندھیروں میں مارے مارے پھرتے ہیں، لہٰذا ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ﴿ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ ﴾ شاید کہ یہ گمراہی کو چھوڑ کر راہ راست پر گامزن ہوں اور اس طرح حق کو پہچان کر اس کو ترجیح دیں۔ یہ تمام امور جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے، ان کی تکذیب کے متناقض ہیں۔ یہ تمام امور ان سے ایمان اور تصدیق کامل کا تقاضا کرتے ہیں کیونکہ یہ ﴿ مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ ” رب کائنات کی طرف سے ہے“ اور یقیناً یہ ﴿ الْحَقُّ ﴾ ” حق ہے“ اور حق ہر حال میں قابل قبول ہوتا ہے۔ ﴿ لَا رَيْبَ فِيهِ ﴾ ” اس میں کسی بھی پہلو سے کوئی شک نہیں“ اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جو شک و ریب کی موجب ہو۔ یہ کتاب کریم کوئی ایسی خبر بیان نہیں کرتی جو واقع کے غیر مطابق ہو اور نہ اس میں کوئی ایسی چیز ہی ہے جس کے معانی میں کوئی اشتباہ ہو یا وہ مخفی ہوں نیز وہ رسالت کے سخت ضرورت مند تھے اور اس کتاب کریم میں ہر قسم کی بھلائی اور نیکی کا راستہ دکھایا گیا ہے۔