وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ۚ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اور اگر وہ تجھ پر یہ دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک بنائے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں [١٩] تو ان کا کہا نہ ماننا۔ البتہ دنیوی معاملات میں ان سے بھلائی کے ساتھ رفاقت کرنا مگر پیروی اس شخص کی راہ کی کرنا جس نے میری طرف رجوع [٢٠] کیا ہو۔ پھر تمہیں میرے پاس [٢١] ہی لوٹ کر آنا ہے تو میں تمہیں بتادوں گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔
﴿ وَإِن جَاهَدَاكَ﴾ اگر تیرے والدین کوشش کریں ﴿ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا﴾ ” اس چیز کی کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک بنائے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو پھر ان کی اطاعت نہ کر۔“ تو یہ نہ سمجھ کہ شرک کے بارے میں ان کی اطاعت کرنا بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حق ہر ایک کے حقوق پر مقدم ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (( لا طَاعةَ لِمَخلوقٍ في مَعْصِيِةِ الخَالِقِ))” خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔ “ [المعجم الكبير للطبراني: 18؍ 170، ح: 381 و شرح السنة للبغوي:10؍ 44] یہاں (ایک قابل غور نکتہ ہے) اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا : (وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا)” اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ اسے شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو ان کی نافرمانی اور ان سے بدسلوکی کر“ بلکہ فرمایا : ﴿فَلَا تُطِعْهُمَا﴾ یعنی تو شرک میں ان کی اطاعت نہ کر۔ باقی رہا ان کے ساتھ نیک سلوک کرنا تو اس پر قائم رہ، اس لیے فرمایا : ﴿وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ﴾ ”اور دنیا (کے معاملات) میں ان کے ساتھ بھلائی کے ساتھ رہ۔“ یعنی ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کے ساتھ پیش آ اور اگر وہ حالت کفر و عصیان پر ہیں تو پھر ان کی پیروی نہ کر ﴿وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ﴾ ” اور اس شخص کی راہ کی اتباع کر جس نے میری طرف رجوع کیا ہے۔“ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں، اپنے رب کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں اور اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ان کے راستے کی پیروی یہ ہے کہ انابت الی اللہ میں ان کے مسلک پر چلا جائے۔ انابت سے مراد یہ ہے کہ قلب کے محرکات اور ارادوں کا اللہ تعالیٰ کی مرضی کی طرف مائل ہونا اور اس کے قریب ہونا، پھر بدن کا ان ارادوں کی پیروی کرنا۔ ﴿ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ ﴾ ” پھر میری طرف تمہارا لوٹنا ہے۔“ اطاعت گزارنا، نافرمان اور صاحب انابت سب میری طرف لوٹیں گے ﴿ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ﴾ ” تو تم جو کام کرتے ہو میں ان کے بارے میں تمہیں آگاہ کروں گا۔“ اللہ تعالیٰ سے ان کا کوئی عمل چھپا ہوا نہیں۔