وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ
اور (یاد کرو) جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا کہ : ’’پیارے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک [١٥] نہ بنانا، کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘
اس بارے میں اصحاب تفسیر میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا جناب لقمان نبی تھے یا اللہ تعالیٰ کے ایک نیک بندے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ ذکر نہیں کیا کہ اس نے ان کو حکمت سے نوازا تھا۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو جو نصیحت کی تھی ان میں کچھ ایسی چیزوں کا ذکر فرمایا جو ان کی حکمت پر دلالت کرتی ہیں۔ انہوں نے حکمت کے بڑے بڑے قواعد اور اصولوں کا ذکر کیا: ﴿وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ﴾ ”اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا“ یا انہوں نے اپنے بیٹے کو ایک بات کہی جس کے ذریعے سے انہوں نے اسے امر و نہی کی نصیحت کی جو ترغیب و ترہیب سے مقرون تھی۔ پس انہوں نے اپنے بیٹے کو اخلاص کا حکم دیا، اسے شرک سے منع کیا اور ممانعت کا سبب بیان کیا، چنانچہ فرمایا : ﴿إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾ ” یقیناً شرک ظلم عظیم ہے“ اور اس کے ظلم عظیم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس شخص سے بڑھ کر کوئی برا نہیں جو مٹی سے بنی ہوئی مخلوق کو کائنات کے مالک کے مساوی قرار دیتا ہے، وہ اس ناچیز کو جو کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتی اس ہستی کے برابر سمجھتا ہے جو تمام اختیارات کی مالک ہے۔ جو ناقص اور ہر لحاظ سے محتاج ہستی کو رب کامل کے برابر مانتا ہے جو ہر لحاظ سے بے نیاز ہے، وہ ایسی ہستی کو جس کے پاس اتنا بھی اختیار نہیں کہ وہ ذرہ بھر بھی کسی کو نعمت عطا کرسکے ایسی ہستی کے مساوی قرار دیتا ہے کہ مخلوق کے دین و دنیا، آخرت اور ان کے قلب و بدن میں جو بھی نعمت ہے وہ اسی کی طرف سے ہے اور اس ہستی کے سوا کوئی تکلیف دور نہیں کرسکتا۔ کیا اس سے بھی بڑا کوئی ظلم ہے؟ کیا اس سے بڑا کوئی ظلم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جسے اپنی عبادت اور توحید کے لیے پیدا کیا وہ اپنے شرف کے حامل نفیس کو خسیس ترین مرتبے تک گرا دیتا ہے اور اس سے ایسی چیز کی عبادت کراتا ہے جو کچھ بھی نہیں؟ پس وہ اپنے آپ پر بہت بڑا ظلم کرتا ہے۔