وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ ۚ وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ
ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی (جو یہ تھی) کہ اللہ کا شکر ادا کرتے رہو۔ جو کوئی شکر ادا کرتا ہے وہ اپنے ہی (فائدہ کے) لئے کرتا ہے اور جو ناشکری [١٤] کرے تو اللہ یقیناً (اس کے شکر سے) بے نیاز ہے اور خود اپنی ذات میں محمود ہے
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے صاحب فضیلت بندے لقمان پر اپنے احسان و عنایت کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے اسے حکمت سے نوازا اور وہ حق اور اس (اللہ) کی حکمت کا علم ہے۔ یہ احکام کے علم، ان کے اسرار نہاں اور ان کے اندر موجود دانائی کی معرفت کا نام ہے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک انسان صاحب علم ہوتا ہے، مگر حکمت سے تہی دامن ہوتا ہے۔ رہی حکمت، تو یہ علم کو مستلزم ہے بلکہ علم کو بھی مستلزم ہے بنا بریں حکمت کی علم نافع اور عمل صالح سے تفسیر کی جاتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے جناب لقمان پر اپنی بڑی نوازش کی تو ان کو اپنی عطا و بخشش پر شکر کرنے کا حکم دیا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو برکت دے اور ان کے لیے اپنے فضل و کرم میں اضافہ کرے، نیز آگاہ فرمایا کہ شکر کی منفعت شکر کرنے والوں ہی کی طرف لوٹتی ہے اور جو کوئی شکر ادا نہیں کرتا تو اس کا وبال اسی پر پڑتا ہے، جو کوئی اس کے حکم کی مخالفت کرتا ہے اس کے بارے میں فیصلہ کرنے میں وہ بے نیاز اور قابل ستائش ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بے نیازی اس کی ذات کا لازمہ ہے، اس کا اپنی صفات کمال اور اپنے خوبصورت کاموں میں قابل ستائش ہونا اس کی ذات کا لازمہ ہے۔ اس کے ان دونوں اوصاف میں سے ہر وصف، صفت کمال ہے اور دونوں اوصاف کا مجتمع ہونا گویا کمال کے اندر کمال کا اضافہ ہے۔