أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
یہی لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے سیدھی راہ پر ہیں [٣] اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں
﴿ أُولَـٰئِكَ﴾ یہ نیکوکار لوگ جو علم کامل اور عمل کے جامع ہیں ﴿ عَلَىٰ هُدًى ﴾ ” ہدایت پر ہیں“ جو بہت عظیم ہے جیسا کہ ” ہدایت“ کو نکرہ استعمال کرنے سے مستفاد ہوتا ہے۔ ﴿ مِّن رَّبِّهِمْ﴾ ” اپنے رب کی طرف سے۔“ جو اپنی نعمتوں کے ذریعے سے ان پر اپنی ربوبیت کا فیضان کرتا اور ان سے تکلیف دہ امور کو دور کرتا رہتا ہے۔ یہ ہدایت، جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو سرفراز فرمایا ہے، اس خاص ربوبیت سے ہے جو اس نے اپنے اولیا پر کی ہے اور یہ ربوبیت کی بہترین قسم ہے۔ ﴿ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ ” اور یہی لوگ فلاح سے بہرہ ور ہیں“ جنہوں نے اپنے رب کی رضا، اس کے دنیاوی اور اخروی ثواب کو پالیا اور اس کی ناراضی اور اس کے عذاب سے بچ گئے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فلاح کے راستے پر گامزن ہوئے، جس کے سوا فلاح کا کوئی اور راستہ نہیں۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان سعادت مند لوگوں کا ذکر کیا جنہوں نے قرآن مجید کے ذریعے سے ہدایت حاصل کی، تو اس کے بعد، ایسے لوگوں کا ذکر فرمایا جو قرآن سے روگردانی کرتے ہیں اور اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ان کو اس کی سخت سزا دی جائے گی، اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کے بدلے ہر باطل قول اختیار کرکے، بہترین قول اور احسن الحدیث کو چھوڑ دیا اور اس کے بدلے قبیح ترین اور انتہائی گھٹیا اقوال کو اختیار کیا، اسی لیے فرمایا :