سورة الروم - آیت 60

فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ وَلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِينَ لَا يُوقِنُونَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

لہٰذا آپ صبر کیجئے۔ اللہ کا وعدہ سچا [٦٦] ہے۔ ایسا نہ ہو کہ جو لوگ یقین نہیں کرتے وہ آپ کو ہلکا بنا دیں [٦٧]۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ فَاصْبِرْ﴾ ” پس صبر کیجیے !“ اپنی دعوت الی اللہ اور جس چیز کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اس پر ثابت قدم رہیے۔ اگر آپ ان کے اندر روگردانی اور اعراض دیکھتے ہیں تو یہ چیز آپ کو اپنی دعوت سے نہ روک دے۔ ﴿ إِنَّ وَعْدَ اللّٰـهِ حَقٌّ﴾ ” یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے“ اس میں کوئی شک نہیں۔ یہ چیز صبر میں مدد دیتی ہے کیونکہ جب بندے کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کا عمل رائیگاں نہیں جائے گا بلکہ اس کا اجر اسے کامل طور پر مل جائے گا، تو اسے اس راستے میں جو تکالیف اور مصائب پہنچتے ہیں وہ اسے معمولی نظر آتے ہیں، اس کے لیے ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے اور اسے ہر بڑا اور زیادہ عمل کم نظر آتا ہے۔ ﴿ وَلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِينَ لَا يُوقِنُونَ﴾ یعنی وہ لوگ آپ کو ہرگز ہلکا نہ پائیں جن کا ایمان کمزور اور یقین بہت کم ہے، بنا بریں ان کی عقل بہت خفیف اور ان میں صبر بہت کم ہے۔ پس یہ لوگ آپ کو ہرگز کمزور نہ پائیں آپ ان سے بچتے رہیں اور ان کی پروا نہ کریں ورنہ وہ آپ کو بہت کمزور اور ہلکا سمجھیں گے اور آپ کو اوامر و نواہی میں عدم ثبات پر محمول کریں گے۔ اس بارے میں نفس ان کی معاونت کرتا ہے اور مشابہت اور موافقت تلاش کرتا ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ ہر مومن جو صاحب یقین ہو اور پختہ عقل رکھتا ہو اس کے لیے صبر کرنا بہت آسان ہے اور ہر کمزور یقین اور کمزور عقل شخص کم صبر والا ہوتا ہے۔ پہلی صورت گویا مغز کی مانند ہے اور دوسری صورت چھلکے کی سی ہے۔ واللہ المستعان۔