سورة الروم - آیت 29

بَلِ اتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَهْوَاءَهُم بِغَيْرِ عِلْمٍ ۖ فَمَن يَهْدِي مَنْ أَضَلَّ اللَّهُ ۖ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان ظالموں نے بغیر علم اپنی خواہشات کی پیروی [٢٩] کر رکھی ہے۔ پھر جسے اللہ نے گمراہ کردیا ہو اسے کون راہ راست پر لاسکتا ہے اور ان کا کوئی مددگار بھی نہ ہوگا۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جب اس مثال سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جو شخص کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک بناتا ہے، پھر اس کی عبادت کرتا ہے اور اپنے معاملات میں اس پر بھروسہ کرتا ہے، تو وہ حق پر نہیں تو وہ کون سی چیز ہے جو انہیں ایک امر باطل پر اقدام کے لیے آمادہ کرتی ہے جس کا بطلان اس کے لیے واضح اور اس کی دلیل ظاہر ہوچکی ہے؟ یقیناً ان کی خواہشات نفس ان کے اس اقدام کی موجب ہیں، اس لیے فرمایا : ﴿بَلِ اتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَهْوَاءَهُم بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾ ” مگر جو ظالم ہیں وہ بے سمجھے اپنی خواہشوں کے پیچھے چلتے ہیں۔“ ان کے ناقص نفس، جن کا نقص ان امور میں ظاہر ہوچکا ہے جن کا تعلق خواہشات نفس سے ہے، ایسی بات چاہتے ہیں جس کو عقل اور فطرت نے فاسد قرار دے کر رد کردیا ہے۔ ان کے پاس کوئی ایسی دلیل و برہان نہیں جو اس کی طرف ان کی رہنمائی کرتی ہو۔ ﴿فَمَن يَهْدِي مَنْ أَضَلَّ اللّٰـهُ﴾ ” پس جسے اللہ گمراہ کردے اسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟“ یعنی ان کی عدم ہدایت پر تعجب نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے ظلم کی پاداش میں گمراہ کردیا ہے اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کردے اس کی ہدایت کا کوئی راستہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اقتدار میں کوئی اس کا مدمقابل ہے نہ کوئی مخالف۔ ﴿وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَ﴾ جب وہ عذاب کے مستحق قرار دے دیئے جائیں گے تو کوئی ان کا مددگار نہ ہوگا جو ان کی مدد کرسکے اور ان کے تمام اسباب منقطع ہوجائیں گے۔