سورة العنكبوت - آیت 13

وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَّعَ أَثْقَالِهِمْ ۖ وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَمَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

یہ اپنے (گناہوں کے) بوجھ تو اٹھائیں گے ہی اور ساتھ ہی دوسروں کے بوجھ [٢٢] بھی اٹھائیں گے (جنہیں انہوں نے گمراہ کیا ہوگا) اور جو کچھ یہ افترا کرتے رہے قیامت کے دن [٢٣] اس سے متعلق ان سے ضرور باز پرس ہوگی۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس وہم کو دور کرتے ہوئے فرمایا ﴿ وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ ﴾ ” اور وہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے۔“ یعنی اپنے ان گناہوں کا بوجھ جن کا انہوں نے ارتکاب کیا ﴿ وَأَثْقَالًا مَّعَ أَثْقَالِهِمْ ﴾ اور اپنے بوجھ کے ساتھ اور بوجھ بھی )اٹھائیں گے( اس سے مراد وہ گناہ ہیں جو ان کے سبب سے اور ان کی جسارت کی بنا پر ان کے اعمال نامے میں لکھے گئے۔ وہ گناہ جس کا ارتکاب کوئی تابع شخص کرتا ہے اس میں تابع اور متبوع دونوں کا حصہ ہوتا ہے تابع کا حصہ اس لئے ہے کہ اس نے اس گناہ کا ارتکاب کیا اور متبوع کا حصہ اس لئے کہ وہ اس گناہ کا سبب بنا اور اس نے اس گناہ کی طرف دعوت دی۔ بالکل اسی طرح جب کوئی تابع شخص نیکی کرتا ہے تو نیکی کرنے والے کو اس کا ثواب ملتا ہے اور وہ شخص بھی اس ثواب سے بہرہ ور ہوتا ہے جس نے اسے نیکی کی دعوت دی اور نیکی کا سبب بنا۔ ﴿ وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَمَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ ﴾ اور جو بہتان یہ باندھتے رہے قیامت کے دن ان کی ان سے ضرور باز پرس ہوگی۔“ یعنی انہوں نے جو بری بات گھڑی ہے پھر اس کو آراستہ کیا ہے نیز ان سے ان کے اس قول ﴿ وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ ﴾ ” ہم تمہاری خطاؤں کو اپنے اوپر لے لیں گے۔“ کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا۔