تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ۚ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ
یہ آخرت کا گھر تو ہم ان لوگوں کے لئے مخصوص کردیتے ہیں جو زمین میں بڑائی [١١٢] یا فساد [١١٣] نہیں چاہتے اور (بہتر) انجام تو پرہیزگاروں کے لئے ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قارون اور جو کچھ اس کو عطا کیا گیا اور اس کے انجام کا ذکر کیا نیز اہل علم کے اس قول سے آگاہ فرمایا : ﴿ ثَوَابُ اللّٰـهِ خَيْرٌ لِّمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا﴾ ” اس شخص کے لئے اللہ کا ثواب بہتر ہے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے آخرت کی ترغیب اور وہ سبب بیان فرمایا جو آخرت کے گھر تک پہنچاتا ہے۔ فرمایا : ﴿ تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ﴾ ” آخرت کا یہ گھر“ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں میں خبر دی، اس کے رسولوں نے آگاہ کیا، جس میں ہر نعمت جمع کردی گئی اور جہاں سے ہر تکدر کو دور کردیا گیا ہے ﴿نَجْعَلُهَا ﴾ ہم اس کو گھر اور ٹھکانا بنا دیں گے ﴿لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ۚ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ﴾ ” ان لوگوں کے لئے جو زمین میں اپنی بڑائی چاہتے ہیں نہ فساد کرتے ہیں“ یعنی ان کا زمین میں فساد کرنے کا ارادہ تک نہیں تو پھر زمین میں اللہ تعالیٰ کے بندوں پر بڑائی حاصل کرنے کی کوشش کرنا، ان کے ساتھ تکبر سے پیش آنا اور حق کے بارے میں تکبر کا رویہ رکھنا تو بہت دور کی بات ہے۔ ﴿وَلَا فَسَادًا﴾ ” اور نہ فساد“ اور یہ تمام معاصی کو شامل ہے۔ جب ان کا زمین میں بڑائی حاصل کرنے اور فساد برپا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تو اس سے یہ بات لازم آئی کہ ان کے ارادے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں مصروف، آخرت کا گھر ان کا مطلوب و مقصود، اللہ کے بندوں کے ساتھ تواضع سے پیش آنا ان کا حال ہے، وہ حق کی اطاعت اور عمل صالح میں مشغول رہتے ہیں۔ یہی وہ اہل تقویٰ ہیں، جن کے لئے اچھا انجام ہے بنا بریں فرمایا : ﴿وَالْعَاقِبَةُ﴾ یعنی فلاح اور کامیابی دائمی طور پر ان لوگوں کا حال ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر لوگ اگرچہ ان کو کچھ غلبہ اور راحت حاصل ہوتی ہے مگر یہ لمبی مدت کے لئے نہیں ہوتی، جلد ہی زائل ہوجاتی ہے۔ آیت کریمہ میں اس حصر سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو لوگ زمین میں بڑائی یا فساد کا ارادہ کرتے ہیں ان کے لئے آخرت کے گھر میں کوئی حصہ نہیں۔