وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللَّهِ خَيْرٌ لِّمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الصَّابِرُونَ
مگر جن لوگوں کو علم [١٠٨] دیا گیا تھا وہ کہنے لگے : جو شخص ایمان لائے اور نیک عمل کرے تو اس کے لئے اللہ کے ہاں جو ثواب ہے وہ (اس سے) بہتر ہے۔ اور وہ ثواب صبر کرنے والوں کو ہی [١٠٩] ملے گا۔
﴿وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ﴾’’اور جن لوگوں کو علم دیا گیا تھا وہ کہنے لگے۔“ یعنی جنہوں نے اشیاء کے حقائق کو پہچانا اور دنیا کے باطن )بے ثباتی( کو مد نظر رکھا ہوا تھا۔ جبکہ ان لوگوں کی نظر دنیا کے ظاہر) زیب و زینت( پر تھی﴿وَيْلَكُمْ﴾ ” تم پر افسوس“ ان کے حال کو دیکھتے، ان کی تمناؤں پر دکھ محسوس کرتے اور ان کی بات پر نکیر کرتے ہوئے کہا : ﴿ثَوَابُ اللّٰـهِ﴾ ثواب عاجل یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس کی محبت کی لذت، اس کی طرف انابت، اس کی طرف اقبال اور ثواب آخرت یعنی جنت کی نعمتیں اور جو کچھ اس میں ہے کہ نفس جن کی خواہش کرتے اور آنکھیں لذت حاصل کرتی ہیں ﴿ خَيْرٌ ﴾ ” بہتر ہے“ اس چیز سے جس کی تم تمنا کر رہے ہو اور جس کی طرف تم رغبت رکھتے ہو۔ یہ تو ہے معاملے کی اصل حقیقت، مگر اس حقیقت کا علم رکھنے والے سب لوگ تو اس کی طرف توجہ نہیں کرتے ﴿إِلَّا الصَّابِرُونَ ﴾ اس کی توفیق صرف ان لوگوں کو عطا کی گئی ہے جو صبر سے بہرہ ور ہیں اور جن لوگوں نے نافرمانی کو چھوڑ کر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا پابند کر رکھا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی تکلیف دہ قضا و قدر پر صبر کرتے ہیں، جو اپنے رب کو فراموش کر کے دنیا کی پرکشش لذات و شہوات میں مشغول ہوتے ہیں نہ یہ لذات و شہوات ان کے ان مقاصد کی راہ میں حائل ہوتی ہیں جن کے لئے ان کو پیدا کیا گیا ہے.... یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ثواب کو اس دنیائے فانی پر ترجیح دیتے ہیں۔