وَقَالُوا إِن نَّتَّبِعِ الْهُدَىٰ مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ أَرْضِنَا ۚ أَوَلَمْ نُمَكِّن لَّهُمْ حَرَمًا آمِنًا يُجْبَىٰ إِلَيْهِ ثَمَرَاتُ كُلِّ شَيْءٍ رِّزْقًا مِّن لَّدُنَّا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
اور کافر لوگ آپ سے یہ کہتے ہیں : اگر ہم تمہارے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو ہم تو اپنے ملک سے [٧٨] اچک لئے جائیں گے؟ کیا ہم نے پرامن حرم کو [٧٩] ان کا جائے قیام نہیں بنایا۔ جہاں ہماری طرف سے رزق کے طور پر ہر طرح کے پھل کھچے چلے آتے ہیں؟ لیکن ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ قریش میں سے اہل تکذیب اور دیگر اہل مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کرتے تھے : ﴿إِن نَّتَّبِعِ الْهُدَىٰ مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ أَرْضِنَا ﴾ ” اگر ہم تمہارے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو ہم اپنے ملک سے اچک لئے جائیں“۔ یعنی ہمیں قتل کرکے، قیدی بناکر اور ہمارا مال و متاع لوٹ کر زمین سے اچک لیا جائے گا کیونکہ لوگ آپ سے عداوت رکھتے ہیں اور آپ کی مخالفت کرتے ہیں، لہٰذا اگر ہم نے آپ کی اتباع کی تو ہمیں تمام لوگوں کی دشمنی کا سامنا کرنا پڑے گا اور ہم لوگوں کی دشمنی مول نہیں لے سکتے۔ ان کا یہ کلام اللہ تعالیٰ کے بارے میں ان کے سوء ظن پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کو فتح و نصرت سے نوازے گا نہ اپنے کلمہ کو بلند کرے گا، بلکہ اس کے برعکس وہ لوگوں کو اپنے دین کے حاملین پر غالب کرے گا جو انہیں بدترین عذاب میں مبتلا کریں گے اور وہ سمجھتے تھے کہ باطل حق پر غالب آجائے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی حالت بیان کرتے اور لوگوں کی بجائے ان کے اختصاص کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿أَوَلَمْ نُمَكِّن لَّهُمْ حَرَمًا آمِنًا يُجْبَىٰ إِلَيْهِ ثَمَرَاتُ كُلِّ شَيْءٍ رِّزْقًا مِّن لَّدُنَّا ﴾ ” کیا ہم نے پرامن حرم کو ان کا جائے قیام نہیں بنایا جہاں ہماری طرف سے رزق کے طور پر ہر طرح کے پھل کھنچے چلے آتے ہیں؟“ یعنی کیا ہم نے انہیں حرم میں اصحاب اختیار نہیں بنایا جہاں نہایت کثرت سے لوگ پے در پے آتے ہیں اور زائرین اس کی زیارت کا قصد کرتے ہیں۔ قریب والے اور بعید والے سب لوگ اس کا احترام کرتے ہیں۔ حرم کے رہنے والوں کو خوف زدہ نہیں کیا جاتا اور لوگ انہیں کم یا زیادہ کوئی نقصان نہیں پہنچاتے۔ حالانکہ ان کے اردگرد ہر جگہ خوف میں گھری ہوئی ہے اور وہاں کے رہنے والے محفوظ ہیں نہ مامون۔ اس لئے انہیں اپنے رب کی حمد و ثناء بیان کرنی چاہیے کہ اس نے انہیں کامل امن سے نوازا جو دوسروں کو میسر نہیں، انہیں اس رزق کثیر پر اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہیے جو ہر طرف سے پھلوں، کھانوں اور دیگر سازوسامان کی صورت میں ان کے پاس پہنچاتا ہے جس سے یہ متمتع ہوتے ہیں اور انہیں فراخی اور کشادگی حاصل ہوتی ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ اس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کریں تاکہ انہیں امن تام اور فراخی سے نوازا جائے۔