إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
(اے نبی)! جسے آپ چاہیں اسے ہدایت [٧٦] نہیں دے سکتے، اللہ ہی ہے جو جس کو چاہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں [٧٧] کو خوب جانتا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آگاہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ آپ۔۔۔ اور آپ کے علاوہ لوگ بدرجہ اولیٰ۔۔۔ کسی کو ہدایت دینے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے خواہ وہ آپ کو کتنا ہی زیادہ محبوب کیوں نہ ہو، کیونکہ یہ ایسا معاملہ ہے جو مخلوق کے اختیار میں نہیں۔ ہدایت کی توفیق اور قلب میں ایمان جاگزیں کرنا اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا ہے ہدایت سے سرفراز کرتا ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ کون ہدایت کا اہل ہے پس اسے ہدایت عطا کردیتا ہے اور کون ہدایت عطا کئے جانے کا اہل نہیں پس اسے اس کی گمراہی میں سرگرداں چھوڑ دیتا ہے۔ رہا اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ﴿وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾ (الشوریٰ: 42؍52) ” اور بلاشبہ آپ صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کر رہے ہیں“ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہدایت کا اثبات، تو یہ ہدایت بیان و ارشاد ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صراط مستقیم کو واضح کرتے ہیں لوگوں کو اس پر چلنے کی ترغیب دیتے ہیں اور لوگوں کو اس پر گامزن کرنے کی بھرپور جدوجہد کرتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ آیا آپ دلوں میں ایمان پیدا کرنے پر قادر ہیں اور فعل کی توفیق عطا کرسکتے ہیں۔۔۔ تو حاشا و کلا ! ایسا ہرگز نہیں۔۔۔ لہذا اگر آپ اس پر قادر ہوتے تو آپ اس شخص کو ضرور ہدایت سے سرفراز فرماتے، جس نے آپ پر احسان فرمایا تھا، جس نے آپ کو اپنی قوم سے بچایا اور آپ کی مدد کی۔۔۔ یعنی آپ کا چچا ابو طالب۔۔۔ مگر آپ نے ابو طالب کو دین کی دعوت دی اور کامل خیر خواہی کے ساتھ اس پر احسان کیا اور یہ اس احسان سے بہت زیادہ ہے جو آپ کے چچا نے آپ کے ساتھ کیا مگر حقیقت یہ ہے کہ ہدایت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔