فَلَمَّا جَاءَهُم مُّوسَىٰ بِآيَاتِنَا بَيِّنَاتٍ قَالُوا مَا هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًى وَمَا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ
پھر جب موسیٰ ہمارے واضح معجزات لے کر ان (فرعونیوں) کے پاس آجائے تو وہ کہنے لگے : یہ تو محض شعبدہ کی قسم کا جادو ہے [٤٦] اور ایسی باتیں تو ہم نے اپنے سابقہ باپ دادوں سے کبھی سنی ہی نہیں۔ [٤٧]
حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے رب کے پیغام کے ساتھ فرعون کے پاس گئے۔ ﴿فَلَمَّا جَاءَهُم مُّوسَىٰ بِآيَاتِنَا بَيِّنَاتٍ﴾ ” پس جب موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس ہمارے کھلی نشانیاں لے کر آئے۔“ یعنی موسیٰ علیہ السلام اپنی دعوت کے تائید میں واضح دلائل لائے جن میں کوئی کوتاہی تھی نہ کوئی پوشیدہ چیز ﴿ قَالُوا﴾ تو فرعون کی قوم نے ظلم، تکبر اور عناد کی بنا پر کہا : ﴿مَا هٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًى﴾ ” یہ تو جادو ہے جو اس نے بنا کر کھڑا کیا ہے۔“ جیسا کہ فرعون نے اس وقت کہا تھا جب حق ظاہر ہو کر باطل پر غالب آگیا اور باطل مضمحل ہوگیا، تمام بڑے بڑے سردار جو معاملات کے حقائق کو جانتے تھے آپ کے سامنے سرنگوں ہوگئے، تو فرعون نے کہا تھا : ﴿إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ﴾ (طٰہٰ : 20؍ 71) ” یہ تمہارا سردار ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے۔“ یہ ذہین مگر ناپاک شخص جو مکرو فریب اور چالبازی کی انتہا کو پہنچ گیا تھا جس کا قصہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، حالانکہ وہ جانتا تھا کہ اسے زمین و آسمان کے رب نے نازل کیا ہے۔ مگر اس پر بدبختی غالب تھی۔ ﴿وَمَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ﴾ ” اور یہ ہم نے اپنے اگلے باپ دادا میں تو (کبھی یہ بات) نہیں سنی۔“ یہ بھی انہوں نے جھوٹ بولا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو واضح دلائل و براہین کے ساتھ مبعوث فرمایا تھا جیسا کہ فرمایا : ﴿وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِن قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِّمَّا جَاءَكُم بِهِ حَتَّىٰ إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَن يَبْعَثَ اللّٰـهُ مِن بَعْدِهِ رَسُولًا كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰـهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابٌ ﴾ (غافر : 40؍ 34) ” اس سے پہلے تمہارے پاس یوسف واضح دلائل لے کر آئے مگر وہ جو کچھ لے کر آئے تھے اس کے بارے میں تم شک میں مبتلا رہے پھر جب وہ وفات پاگئے تو تم نے کہا اب اللہ ان کے بعد کوئی رسول مبعوث نہیں کرے گا۔ اسی طرح اللہ ہر ایسے شخص کو گمراہی میں مبتلا کردیتا ہے جو حد سے تجاوز کرنے والا اور شکی ہوتا ہے۔ “