قَالَتْ إِحْدَاهُمَا يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ ۖ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ
ان میں سے ایک بولی، اباجان! اسے اپنا نوکر رکھ لیجئے۔ بہترین آدمی جسے آپ نوکر رکھنا چاہیں وہی ہوسکتا ہے جو طاقتور اور امین ہو۔ [٣٦]
﴿ قَالَتْ إِحْدَاهُمَا ﴾ یعنی ان کی ایک بیٹی نے کہا : ﴿يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ﴾ یعنی انہیں اپنے پاس اجرت پر رکھ لیں یہ آپ کی بکریوں کو چرائیں گے اور انہیں پانی پلائیں گے ﴿ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ﴾ یعنی موسیٰ علیہ السلام تمام ملازموں سے بہتر ہیں کیونکہ یہ طاقتور بھی ہیں اور امین بھی اور بہترین ملازم وہ ہوتا ہے جس میں وہ کام کرنے کی قوت اور قدرت ہو جس کے لئے اسے ملازم رکھا گیا ہے اور اس میں خیانت نہ ہو اور وہ امین ہو۔ یہ دونوں صفات ہر اس شخص میں اہمیت دئیے جانے کے لائق ہیں جس کو کوئی منصب سونپا جائے یا اسے اجرت وغیرہ پر رکھا جائے۔ معاملات میں خلل اس وقت واقع ہوتا ہے جب یہ دونوں اوصاف یا ان میں سے ایک وصف مفقود ہو۔ ان دونوں اوصاف کے اجتماع سے اس کام کی بدرجہ احسن تکیل ہوتی ہے۔ اس عورت نے اپنے باپ کو مشورہ اس لئے دیا تھا کہ اس نے بکریوں کو پانی پلاتے وقت موسیٰ علیہ السلام کی قوت اور نشاط کا مشاہدہ کرلیا تھا جس سے اس نے آپ کی قوت کا اندازہ لگا لیا تھا اور اسی طرح اس نے موسیٰ علیہ السلام کی امانت اور دیانت کو بھی پرکھ لیا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان عورتوں پر اس وقت اور اس حالت میں رحم کھایا تھا جب ان سے کسی فائدے کی امید نہ تھی آپ کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی تھا۔