وَقَالَتِ امْرَأَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَيْنٍ لِّي وَلَكَ ۖ لَا تَقْتُلُوهُ عَسَىٰ أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
اور فرعون کی بیوی فرعون سے کہنے لگی : یہ بچہ تو میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، [١٤] اسے قتل نہ کرو، کیا عجیب کہ یہ ہمارے لئے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنالیں اور وہ (اس کے انجام سے) بے خبر [١٥] تھے۔
پس جب فرعون کے گھر والوں نے موسیٰ علیہ السلام کو دریا سے نکال لیا تو اللہ تعالیٰ نے فرعون کی جلیل القدر اور مومنہ بیوی آسیہ بنت مزاحم کے دل میں رحم ڈال دیا۔ ﴿وَقَالَتِ﴾ ” وہ بولی“ یہ لڑکا ﴿قُرَّتُ عَيْنٍ لِّي وَلَكَ لَا تَقْتُلُوهُ ﴾ ” میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے“ یعنی اسے زندہ رکھ لو تاکہ اس کے ذریعے سے ہم اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں اور اپنی زندگی میں اس کے ذریعے سے مسرت حاصل کریں۔ ﴿عَسَىٰ أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا﴾ ” شاید یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا ہم اسے بیٹا بنالیں۔“ یعنی یہ بچہ ان خدام میں شامل ہوگا جو ہمارے مختلف کام کرنے اور خدمت سرانجام دینے میں کوشاں رہتے ہیں یا اس سے بلند تر مرتبہ عطا کرکے اسے اپنا بیٹا بنالیں گے اور اس کی عزت و تکریم کریں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مقدر فرمادیا کہ وہ بچہ فرعون کی بیوی کو فائدہ دے جس نے یہ بات کہی تھی۔ جب وہ بچہ فرعون کی بیوی کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن گیا اور اسے اس بچے سے شدید محبت ہوگئی اور وہ بچہ اس کے لئے حقیقی بیٹے کی حیثیت اختیار کرگیا یہاں تک کہ وہ بڑا ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو نبوت اور رسالت سے سرفراز فرمایا۔۔۔ تو اس نے جلدی سے ایمان لا کر اسلام قبول کرلیا۔ رضی اللہ عنہا موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ان کے مابین ہونے والی مذکورہ گفتگو کی بابت اللہ نے فرمایا : ﴿ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ﴾ یعنی انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ لوح محفوظ میں کیا درج ہے تقدیر نے انہیں کس عظیم الشان مقام پر فائز کردیا ہے اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے۔ اگر انہیں اس حقیقت کا علم ہوتا تو ان کا اور موسیٰ علیہ السلام کا معاملہ کچھ اور ہی ہوتا۔