فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ لِيَكُونَ لَهُمْ عَدُوًّا وَحَزَنًا ۗ إِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا كَانُوا خَاطِئِينَ
چنانچہ فرعون کے گھر والوں نے اس بچے کو اٹھا لیا کہ وہ ان کے لئے دشمن اور رنج [١٢] کا باعث بنے بلاشبہ فرعون، ہامان اور [١٣] ان کے لشکر خطا کار لوگ تھے
چنانچہ انہوں نے وہی کچھ کیا جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا اور موسیٰ علیہ السلام کو صندوق میں رکھ کر دریا میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ اس صدوق کو حفاظت کے ساتھ چلاتا رہا۔ حتیٰ کہ فرعون کے گھر والوں نے اسے نکال لیا گویا وہ ان کے لئے راستے میں پڑا ہوا بچہ بن گیا جنہوں نے اسے نکالا تھا اور وہ اسے پاکر بہت خوش ہوئے۔ ﴿ لِيَكُونَ لَهُمْ عَدُوًّا وَحَزَنًا ﴾ تاکہ ان کی عاقبت اور انجام یہ ہو کہ اٹھایا ہوا بچہ ان کا دشمن اور ان کے لئے حزن و غم اور صدمے کا باعث بنے، اس کا سبب یہ ہے کہ تقدیر الہٰی کے مقابلے میں احتیاط کام نہیں آتی۔ وہ چیز جس کے بارے میں وہ بنی اسرائیل سے خائف تھے اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمادیا کہ ان کا قائد ان کے ہاتھوں میں، ان کی نظروں کے سامنے اور ان کی کفالت میں تربیت ہائے۔ جب آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعے میں غوروفکر کریں گے تو اس ضمن میں آپ پائیں گے کہ بنی اسرائیل کے لئے بہت سے مصالح حاصل ہوئے اور بہت سے پریشان کن امور سے انہیں چھٹکارا حاصل ہوا، اسی طرح آپ کو رسالت ملنے سے پہلے بنی اسرائیل پر سے بہت سے مظالم ختم ہوگئے، کیونکہ آپ مملکت فرعون کے ایک بڑے عہدے دار کی حیثیت سے رہتے تھے۔۔۔ چونکہ آپ ایک بلند ہمت اور انتہائی غیرت مند انسان تھے اسی لئے طبعی طور پر آپ کی قوم کے بہت سے حقوق کا دفاع ہونا ضروری تھا۔ آپ کی ضعیف اور کمزور قوم۔۔۔ جن کی کمزوری و ناتوانی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے۔۔۔ کہ بعض افراد اس ظالم و غاصب قوم کے خلاف جھگڑنے لگے تھے جیسا کہ اس کا بیان آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں گے۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ظہور کے مقدمات تھے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ ہے کہ تمام امور آہستہ آہستہ اور بتدریج وقوع پذیر ہوتے ہیں، کوئی واقعہ اچانک رونما نہیں ہوتا۔ فرمایا : ﴿إِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا كَانُوا خَاطِئِينَ﴾ یعنی یہ سب مجرم تھے اس لئے ہم نے ان کو ان کے جرم کی سزا دینے کا ارادہ کیا اور ہم نے ان کے مکر اور سازش کرنے کی پاداش میں ان کے خلاف چال چلی۔