إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ هَٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِي حَرَّمَهَا وَلَهُ كُلُّ شَيْءٍ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ
(اے نبی! کہہ دیجئے :) مجھے تو یہی حکم ہوا ہے کہ میں اس شہر (مکہ) کے مالک حقیقی کی اطاعت کروں جس نے اسے [١٠١] احترام بخشا اور جو ہر چیز کا مالک ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں فرمانبردار بن کر رہوں۔
اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہہ دیجئے : ﴿إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ هَـٰذِهِ الْبَلْدَةِ﴾ ” مجھے یہی حکم ہوا ہے کہ میں اس شہر کے رب کی عبادت کروں۔“ یعنی مکہ مکرمہ ﴿الَّذِي حَرَّمَهَا﴾ ” جس نے اس کو محترم بنایا۔“ اور اس کے رہنے والوں کو نعمتوں سے بہرہ ورکیا۔ پس اس لئے ان پر واجب ہے کہ وہ ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔ ﴿وَلَهُ كُلُّ شَيْءٍ﴾ عالم علوی اور عالم سفلی کی تمام اشیاء کا وہی مالک ہے اور یہ فقرہ اس وہم کے ازالے کے لئے استعمال کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت صرف بیت حرام سے مختص ہے ﴿وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ﴾ )یہاں مصنف نے سبقت قلم سے﴿وامرت ان اکون اول المسلمین﴾لکھ دیا ہے اور اسی کے مطابق تفسیر کی ہے( یعنی مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں جلدی سے اسلام کی طرف بڑھوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تعمیل کی کیونکہ وہ اولین مسلمان اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے مطیع تھے۔