قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَن مَّعَكَ ۚ قَالَ طَائِرُكُمْ عِندَ اللَّهِ ۖ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُونَ
وہ کہنے لگے ہم تو تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو منحوس سمجھتے ہیں [٤٧] ( صالح نے) کہا : ’’تمہاری نحوست تو اللہ کے پاس ہے بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) تم لوگ آزمائش [٤٨] میں پڑے ہوئے ہو‘‘
﴿قَالُوا﴾ انہوں نے اپنے نبی صالح (علیہ السلام) کی تکذیب اور آپ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا : ﴿اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَن مَّعَكَ﴾ ” تم اور تمہارے ساتھی ہمارے لئے شکون بد ہیں۔“ ان کا خیال تھا۔۔۔ اللہ ان کا برا کرے۔۔۔۔ کہ انہوں نے صالح (علیہ السلام) میں بھلائی کی کوئی بات نہیں دیکھی۔ انہیں جو دنیاوی مقاصد حاصل نہیں ہوتے تھے وہ اس کا سبب صالح علیہ السلام اور ان کے متبعین کو گردانتے تھے۔ اس لئے صالح علیہ السلام نے ان سے فرمایا : ﴿طَائِرُكُمْ عِندَ اللّٰـهِ﴾ ” تمہاری بدشگونی اللہ کے پاس ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کی پاداش میں تم پر مصائب نازل کرتا ہے ﴿بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُونَ﴾ ” بلکہ تم ایسے لوگ ہو جنہیں (خوشحالی اور بدحالی، خیر اور شر کے ذریعے سے) آزمایا جاتا ہے“ تاکہ اللہ تعالیٰ دیکھے کہ آیا تم گناہوں سے باز آکر توبہ کرتے ہو یا نہیں؟ اپنے نبی کو جھٹلانے اور اس کے ساتھ اسی طرح پیش آنے کی، ان کی یہ عادت تھی۔