سورة آل عمران - آیت 28

لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

مومنوں کو اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو ہرگز دوست نہ بنانا چاہیے اور جو ایسا کرے گا اسے اللہ سے کوئی واسطہ نہیں الا یہ کہ تمہیں ان کافروں سے بچاؤ کے لیے کسی قسم کا طرز عمل اختیار کرنا پڑے۔[٣١] اور اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تعالیٰ مومنوں کو کافروں سے دوستی لگانے سے منع فرماتا ہے کہ ان سے محبت نہ رکھیں، ان کی مدد نہ کریں، مسلمانوں کے کسی کام میں ان سے مدد نہ لیں اور جو کوئی ایسی حرکت کرے اسے تنبیہ فرماتا ہے کہ ﴿وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّـهِ فِي شَيْءٍ﴾” جو ایسا کرے گا، اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں“ یعنی وہ اللہ سے کٹ گیا ہے، اس کا اللہ کے دین میں کوئی حصہ نہیں۔ کیونکہ کافروں سے دوستی اور ایمان جمع نہیں ہوسکتے۔ ایمان تو اللہ سے محبت اور اس کے دوستوں یعنی مومنوں سے تعاون کر کے اللہ کے دین کو قائم کرنے اور اس کے دشمنوں سے جنگ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے﴿ وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ﴾(التوبہ :9؍71) ” مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی (مددگار، محبت رکھنے والے) ہیں۔“ جو شخص مومنوں کو چھوڑ کر ان کافروں سے دوستی لگاتا ہے جو اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور اس کے اولیاء کو فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں، ایسا شخص مومنوں کی جماعت سے نکل جاتا ہے اور کافروں کی جماعت میں داخل ہوجاتا ہے۔ اللہ نے فرمایا: ﴿وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ﴾(المائدہ :51؍5) ” تم میں سے جو کوئی ان سے محبت رکھے گا، وہ انہی میں سے ہوگا“ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کافروں کے ساتھ میل جول رکھنے سے، ان سے دوستی لگانے سے ان کی طرف میلان رکھنے سے بچنا ضروی ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی کافر کو مسلمانوں کی حکومت کا کوئی عہدہ نہیں دیا جاسکتا۔ عام مسلمانوں کے فائدے کے کسی کام میں ان سے مدد نہیں لی جاسکتی۔﴿ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً﴾” مگر یہ کہ ان کے شر سے کسی طرح کا بچاؤ مقصود ہو۔“ یعنی اگر تمہیں ان سے جان کا خطرہ ہو تو اپنی جان بچانے کے لئے زبان سے تقیہ کرسکتے ہو، اور ظاہری طور پر ایسا کام کرسکتے ہو جس سے تقیہ ہوجاتا ہے۔ (١) ﴿وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّـهُ نَفْسَهُ﴾ ” اللہ تعالیٰ تمہیں خود اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے۔“ لہٰذا اس کی نارفمانی کر کے اس کی ناراضی مول نہ لو۔ ورنہ وہ تمہیں اس کی سزا دے گا۔ ﴿وَإِلَى اللَّـهِ الْمَصِيرُ ﴾ ” اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔“ یعنی قیامت کے دن سب بندے اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔ پھر وہ تمہارے اعمال کو شمار کرے گا، ان پر محاسبہ کرے گا اور سزا و جزا دے گا۔ لہٰذا ایسے برے کام کرنے سے بچو جن کی وجہ سے تم عقوبت کے مستحق ہوجاؤ۔ بلکہ ایسے عمل کرو جن سے تمہیں اجر و ثواب ملے۔ پھر اللہ نے اپنے علم کی وسعت کے بارے میں فرمایا، وہ زمین و آسمان کی تمام چیزوں کا علم رکھتا ہے، بالخصوص جو کچھ دلوں میں ہے اسے بھی جانتا ہے۔ اس کی قدرت بھی کامل ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ دلوں کو پاک رکھنا چاہئے اور ہر وقت اللہ کے علم کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ اس کے نتیجے میں بندے کو اس بات سے شرم آئے گی۔ [ تحقیق شدہ نسخہ کے حاشیہ میں لکھا ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’المنھاج“ میں فرمایا ہے : اللہ کا یہ فرمان : ﴿إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً﴾ اس کے بارے میں حضرت مجاہد نے فرمایا ہے : (لامصانعۃ) ” ان کا ساتھ نہ دو“۔ تقیہ یہ نہیں ہوتا کہ میں جھوٹ بولوں، اور زبان سے وہ بات کہوں جو میرے دل میں نہیں، یہ تو منافقت ہے۔ بلکہ مجھے چاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق جو کچھ کرسکوں کروں۔ ارشاد نبوی ہے ” تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے، تو اسے ہاتھ سے تبدیل (اور ختم) کر دے اور اگر یہ طاقت نہ ہو، تو زبان سے (منع کرے)۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے (نفرت رکھے )۔“ لہٰذا مومن جب کافروں اور بدکاروں میں گھر جائے تو کمزور ہونے کی وجہ سے اس پر ہاتھ سے جہاد کرنا فرض نہیں۔ اگر زبان سے منع کرسکے تو ضرور کرے ورنہ دل سے نفرت رکھے۔ ان تمام درجات میں وہ جھوٹ نہیں بولے گا۔ زبان سے وہ بات نہیں کہے گا، جو اس کے دل میں نہیں۔ وہ یا تو اپنا دین ظاہر کرے گا، یا چھپائے گا۔ لیکن کسی بھی حال میں ان کے مذہب کی تائید نہیں کرے گا۔ زیادہ سے زیادہ مومن آل فرعون کا، یا زوجہ فرعون کا ساطرز عمل اختیار کرسکتا ہے۔ وہ مومن ان کے دین کی تائید نہیں کرتا تھا، نہ جھوٹ بولتا تھا، نہ زبان سے وہ بات کہتا تھا جو اس کے دل میں نہیں، بلکہ اپنے دین کو چھپائے ہوئے تھا۔ دین کو چھپانا اور چیز ہے اور باطل دین کا اظہار بالکل دوسری چیز ہے۔ اللہ نے اس چیز کی بالکل اجازت نہیں دی۔ صرف اسے اجازت دی ہے جسے کلمہ کفر کہنے پر زبردستی مجبور کردیا جائے۔۔۔“ الخ۔ (از محقق) ] کہ اس کا مالک اس کے دل کو گندے خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا دیکھے۔ بلکہ وہ اپنی سوچ کو ایسے امور میں مشغول کرے گا جن سے اللہ کا قرب حاصل ہو۔ مثلاً قرآن مجید کی کسی آیت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث پر غور و فکر، یا ایسے علم کو سمجھنے کی کوشش جس سے اسے فائدہ ہو، یا اللہ کی کسی مخلوق اور نعمت کے بارے میں سوچنا، یا اللہ کے بندوں کی بھلائی کے کسی کام کے بارے میں سوچ بچار۔