وَصَدَّهَا مَا كَانَت تَّعْبُدُ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ إِنَّهَا كَانَتْ مِن قَوْمٍ كَافِرِينَ
ملکہ کو (ایمان لانے سے) ان چیزوں نے روک رکھا [٤١] تھا جنہیں وہ اللہ کے سوا پوجتی تھی کیونکہ وہ ایک کافر قوم سے تھی۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَصَدَّهَا مَا كَانَت تَّعْبُدُ مِن دُونِ اللّٰـهِ ﴾’’اور اللہ کے سوا وہ جس کی پرستش کرتی تھی، اس نے اسے روکے رکھا۔“ یعنی اسے اسلام سے روکے رکھا ورنہ اس میں ذہانت و فطانت تھی جس کے ذریعے سے وہ باطل میں سے حق کو پہچان سکتی تھی۔ مگر حقیقت ہے کہ باطل عقائد بصیرت قلب کو زائل کردیتے ہیں ﴿ إِنَّهَا كَانَتْ مِن قَوْمٍ كَافِرِينَ ﴾ ” (اس سے پہلے)وہ کافروں میں سے تھی۔“ اس لئے وہ انہی کے دین پر قائم رہی۔ اہل دین سے کسی ایک شخص کا علیحدہ ہونا۔۔۔ جبکہ اس کی دائمی عادت اس معاملے کے بارے میں کہ ہے کہ اس کی عقل اے لوگوں کی گمراہی اور خطا قرار دیتی ہے۔۔۔ بہت نادر چیز ہے، اس لئے اس کا کفر پر باقی رہنا کوئی تعجب انگیز نہیں ہے۔ پھر سلیمان علیہ السلام نے ارادہ کیا کہ ملکہ ان کی سلطنت کا مشاہدہ کرکے جو عقول کو حیران کردیتی ہے۔ پس آپ نے اس سے کہا کہ وہ محل میں داخل ہو، وہ ایک بلند اور وسیع بیٹھنے کی جگہ تھی اور یہ شیشے سے بنائی گئی تھی جس کے نیچے نہریں جاری تھیں۔