سورة النمل - آیت 39

قَالَ عِفْرِيتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ ۖ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

ایک دیو ہیکل جن نے کہا : آپ کے دربار کو برخواست کرنے سے پہلے میں اسے لا سکتا ہوں۔ میں اس کام کی پوری قوت رکھتا ہوں اور امانت داربھی ہوں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ قَالَ عِفْرِيتٌ مِّنَ الْجِنِّ ﴾ ” جنات میں سے’’عفریت‘‘ نے کہا۔” عفریت سے مراد وہ (جن وغیرہ) ہے جو نہایت طاقتور اور چست ہو۔ ﴿أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ ﴾ ’’قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں میں اس کو آپ کے پاس لا حاضر کرتا ہوں۔ میں اس کو اٹھانے کی طاقت رکھتا ہوں اور امانت دار ہوں۔“ ظاہر ہے اس وقت سلیمان علیہ السلام شام کے علاتے میں تھے ان کے درمیان اور قوم سبا کے علاقے کے درمیان تقریباً چارہ ماہ کی مسافت تھی۔۔۔ دو ماہ جانے کے لئے اور دو ماہ واپس لوٹنے کیلئے۔ بایں ہمہ اس عفریت نے کہا کہ اس تخت کے بڑا اور بھاری ہونے اور فاصلہ زیادہ ہونے کے باوجود وہ اسے لانے کا التزام کرتا ہے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے اس مجلس سے کھڑا ہونے سے پہلے پہلے وہ اسے لا کر پیش کردے گا۔ اس قسم کی طویل مجالس کی عادت یہ ہوتی ہے کہ یہ زیادہ تر چاشت کے وقت تک رہتی ہیں یعنی یہ مجالس دن کے تیسرے حصے تک جاری رہتی ہیں یہ عام معمول کے وقت کی انتہاء ہے تاہم اس وقت میں کمی بیشی بھی ہوسکتی ہے۔