وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ
(پھر ایک موقع پر) سلیمان نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہنے لگے : ''کیا بات ہے مجھے ہد ہد نظر نہیں آرہا، کیا وہ کہیں غائب ہوگیا ہے۔
چنانچہ فرمایا : ﴿ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ ﴾ ” اور انہوں نے پرندوں کا جائزہ لیا۔“ یہ چیز آپ کے کامل عزم و حزم، آپ کی افواج کی بہترین تنظیم اور چھوٹے بڑے معاملات میں آپ کی بہترین تدبیر پر دلالت کرتی ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے پرندوں کو بھی مہمل نہیں چھوڑا بلکہ آپ نے ان کا بغور معائنہ کیا کہ تمام پرندے حاضر ہیں یا ان میں سے کوئی مفقود ہے؟ یہ ہے آیت کریمہ کا معنی۔ ان مفسرین کا یہ قول صحیح نہیں کہ سلیمان علیہ السلام نے پرندوں کا معائنہ اس لئے کیا تھا تاکہ وہ ہد ہد کو تلاش کریں کہ وہ کہاں ہے؟ جو ان کی رہنمائی کرے کہ آیا پانی قریب ہے یا دور ہے۔ جیسا کہ ہد ہد کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ زمین کی کثیف تہوں کے نیچے پانی دیکھ سکتا ہے۔ ان کے اس قول پر کوئی دلیل نہیں بلکہ عقلی اور لفظی دلیل اس کے بطلان پر دلالت کرتی ہے۔ عقلی دلیل یہ ہے کہ عادت، تجربات اور مشاہدات کے ذریعے سے یہ بات معلوم ہے کہ تمام حیوانات میں کوئی حیوان ایسا نہیں جو خرق عادت کے طور پر زمین کی کثیف تہوں کے نیچے پانی دیکھ سکتا ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کا ذکر ضرور کرتا کیونکہ یہ بہت بڑا معجزہ ہے۔ رہی لفظی دلیل، تو اگر یہی معنی مراد ہوتا تو اللہ تعالیٰ یوں فرماتا :” سلیمان نے ہد ہد کو طلب کیا تاکہ وہ ان کے لئے پانی تلاش کرے جب انہوں نے ہد ہد کو موجود نہ پایا تو انہوں نے کہا جو کہا۔۔۔“ یا عبارت اس طرح ہوتی ” سلیمان نے ہد ہد کے بارے میں تفتیش کی‘‘ یا ’’ہد ہد کے بارے میں تحقیق کی“ اور اس قسم کی دیگر عبارات۔ انہوں نے تو پرندوں کا صرف اس لئے جائزہ لیا تھا تاکہ وہ معلوم کریں کہ ان میں سے کون حاضر اور کون غیر حاضر ہے اور ان میں سے کون اپنے اپنےمقام پر موجود ہے جہاں اس کو متعین کیا گیا تھا۔ نیز حضرت سلیمان علیہ السلام پانی کے محتاج نہ تھے کہ انہیں ہد ہد کے علم ہندسہ کی ضرورت پڑتی۔ اس لئے کہ آپ کے پاس جن اور بڑے بڑے عفریت تھے جو پانی کو خواہ کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہوتا زمین کھود کر نکال لاتے۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کیلئے ہوا کو مسخر کردیا تھا وہ صبح کے وقت ایک مہینے کی راہ تک اور شام کے وقت ایک مہینے کی راہ تک چلتی تھی ان تمام نعمتوں کے ہوتے ہوئے وہ ہد ہد کے کیسے محتاج ہوسکتے تھے؟ یہ جو موجود تفاسیر جو شہرت پا چکی ہیں ان کے سوا کوئی تفسیر معروف ہے نہ پائی جاتی ہے سب مجرد اسرائیلی روایات ہیں اور ان کے ناقلین صحیح معانی سے ان کے تناقض اور صحیح اقوال کے ساتھ ان کی تطبیق سے بے خبر ہیں۔ پھر یہ تفاسیر نقل ہوتی چلی آئیں، متاخرین متقدمین کے اعتماد پر ان کو نقل کرتے رہے حتیٰ کہ ان کے حق ہونے کا یقین آنے لگا۔ پس تفسیر میں ردی اقوال اسی طرح جگہ پاتے ہیں۔ ایک عقل مند اور ذہین شخص خوب جانتا ہے کہ یہ قرآن کریم عربی مبین میں نازل ہوا ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے عالم و جاہل تمام مخلوق کو خطاب کیا ہے اور ان کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کے معانی میں غوروفکر کریں اور ان کو معروف عربی الفاظ کے ساتھ جن کے معانی معروف ہیں تطبیق دینے کی کوشش کریں۔ جن سے اہل عرب نا واقف نہیں۔ اگر کچھ تفسیر اقوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی اور سے منقول ہیں تو ان کو اس اصل پر پرکھنا چاہیے۔ اگر وہ اس اصل کے مطابق ہیں تو ان کو قبول کرلیا جائے کیونکہ الفاظ معانی پر دلالت کرتے ہیں۔ اگر یہ اقوال لفظ اور معنی کی مخالفت کرتے ہیں یا وہ لفظ یا معنی میں سے ایک کی مخالفت کرتے ہیں تو ان کو رد کردے اور ان کے بطلان کا یقین کرے کیونکہ اس کے پاس ایک مسلمہ اصول ہے اور یہ تفسیری اقوال اس اصول کی مخالفت کرتے ہیں اور یہ اصول ہمیں کلام کے معنی اور اس کی دلالت کے ذریعے سے معلوم ہے۔ اور محل استشہاد یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا پرندوں کا معائنہ کرنا اور ہد ہد کو مفقود پانا ان کے کمال حزم و احتیاط، تدبیر سلطنت میں ذاتی عمل دخل اور ان کی ذہانت و فطانت پر دلالت کرتا ہے، یہاں تک کہ ہد ہد جیسے چھوٹے سے پرندے کو مفقود پایا تو فرمایا : ﴿ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ ﴾ ” کیا وجہ ہے کہ ہد ہد نظر نہیں آتا، کیا کہیں غائب ہوگیا ہے؟“ کیا ہد ہد کا نظر نہ آنا میری قلت فطانت کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ وہ مخلوق کے بے شمار گروہوں میں چھپا ہوا ہے؟ یا میری بات برمحل ہے کہ وہ میری اجازت اور حکم کے بغیر غیر حاضر ہے؟