يُلْقُونَ السَّمْعَ وَأَكْثَرُهُمْ كَاذِبُونَ
جو (شیطانوں کی طرف) اپنے کان لگاتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے [١٣٣] ہوتے ہیں
﴿ يُلْقُونَ السَّمْعَ ﴾ ” جو سنی ہوئی بات لا ڈالتے ہیں۔“ یعنی آسمان سے سن گن لے کر چرائی ہوئی باتیں ان کے کانوں میں ڈالتے ہیں ﴿وَأَكْثَرُهُمْ كَاذِبُونَ ﴾ ” اور وہ اکثر جھوٹے ہیں۔“ یعنی جو باتیں، ان کے کانوں میں ڈالتے ہیں ان میں سے اکثر باتیں جھوٹی ہیں۔ اگر ایک بات سچی ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ایک سو جھوٹی باتیں شامل کردیتے ہیں۔ تب حق باطل کیساتھ خلط ملط ہوجاتا ہے اور حق اپنی قلت اور عدم علم کی بنا پر کمزور ہوجاتا ہے۔ یہ ان لوگوں کے اوصاف ہیں جن پر شیاطین نازل ہوتے ہیں اور یہ شیطانی الہام کا وصف ہے۔۔۔ رہے رسول مصطفی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو آپ کا حال ان احوال سے بہت زیاہ مختلف ہے کیونکہ آپ صادق، امین، نیکو کار، رشدو ہدایت پر کاربند ہیں۔ آپ طہارت قلب، صدق مقال، محرمات سے پاک افعال کے جامع ہیں۔ آپ کی طرف جو اللہ کی طرف سے وحی نازل کی جاتی ہے، نزول کے وقت اس کی حفاظت کی جاتی ہے یہ وحی صدق عظیم پر مشتمل ہوتی ہے جس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہوتا۔ اے عقل مند لوگو ! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رشدو ہدایت پر مبنی طریقہ اور شیاطین کی افترا پردازی برابر ہوسکتے ہیں؟ یہ دونوں متضاد اوصاف صرف اسی شخص پر مشتبہ ہوسکتے ہیں جو پاگل ہو اور چیزوں کے درمیان فرق اور امتیاز کرنے سے عاری ہو۔