وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ
اور اپنے کنبہ کے قریبی رشتہ داروں [١٢٧] کو (برے انجام سے) ڈرائیے
چنانچہ فرمایا : ﴿ وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ﴾ ” اور اپنے قریبی عزیزوں کو ڈرائیں۔“ یعنی جو آپ کے سب سے زیادہ قریبی اور دینی اور دنیاوی احسان کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ یہ چیز تمام لوگوں کو ڈرانے کے حکم کے منافی ہے۔ جیسے، جب انسان کو عمومی احسان کا حکم دیا جاتا ہے اور پھر اسے کہا جاتا ہے : ( اَحْسِنْ إِلٰی قَرَابَتِکَ ) ” اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔“ تب یہ خاص حکم تاکید اور حق کے زیادہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم الٰہی کی تعمیل کی۔ چنانچہ آپ نے قریش کے تمام گھرانوں کو عمومی اور خصوصی دعوت دی ان کو وعظ و نصیحت کی۔ آپ نے اپنے رشتہ داروں کی خیر خواہی اور ہدایت کے لئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ جسے ہدایت عطا ہونی تھی اس نے ہدایت حاصل کرلی، جس نے روگردانی کرنی تھی اس نے روگردانی کی۔