إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ ۗ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ
اللہ کے ہاں دین صرف اسلام [٢٢] ہے اور اہل کتاب نے علم (وحی) آجانے کے بعد جو اختلاف [٢٣] کیا تو اس کی وجہ محض ان کی باہمی ضد [٢٤] اور سرکشی تھی۔ جو شخص اللہ کی آیات سے انکار کرتا ہے تو اللہ کو اس کا حساب چکانے میں کچھ دیر نہیں لگتی
جب یہ ثابت ہوگیا کہ معبود برحق صرف اللہ ہی ہے، تب یہ بتایا کہ کس طرح عبادت کرنا اور کس دین کو قبول کرنا ضروری ہے۔ وہ دین اسلام ہے ” اسلام“ کا مطلب ” سرتسلیم خم کرنا“ ہے، یعنی اللہ کی توحید اور اطاعت جس کی دعوت اس کے رسولوں نے دی، جس کی ترغیب اس کی کتابوں نے دی۔ اس کے سوا کوئی دین قبول نہیں، اس میں یہ بھی شامل ہے کہ محبت، خوف، امید، انابت اور دعا خالصتاً اس کے لئے ہو اور اس مقصد کیلئے اس کے رسول کی پیروی کی جائے۔ یہی تمام رسولوں کا دین ہے۔ جو ان کی پیروی کرے گا، وہ انکے راستے پر ہوگا۔ اہل کتاب کو ان کی کتابیں متحد ہو کر اللہ کے دین پر عمل کرنے کا حکم دیتی تھیں۔ انہوں نے ان کی کتابوں کے آنے کے بعد ظلم و زیادتی کرتے ہوئے آپس میں اختلاف کیا۔ ورنہ ان کے پاس اختلاف سے بچ کر حق کی راہ اختیار کرنے کا سب سے بڑا سبب موجود تھا۔ اسے پس پشت ڈال دینا ان کا کفر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّـهِ فَإِنَّ اللَّـهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ﴾ ” اور اہل کتاب نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد آپس کی سرکشی اور حسد کی بنا پر ہی اختلاف کیا ہے اور اللہ کی آیتوں کے ساتھ جو بھی کفر کرے۔ اللہ اس کا جلد حساب لینے والا ہے“ پھر وہ ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا۔ بالخصوص جس نے حق کو پہچان کر ترک کیا، یہ سخت وعید اور عذاب الیم کا مستحق ہے۔