سورة البقرة - آیت 23

وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور (اے کافرو!) اگر تمہیں اس کلام میں [٢٧] ہی شک ہے جو ہم نے اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا ہے تو تم بھی اس جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ۔ اور اللہ کو چھوڑ کر اپنے سب ہم نواؤں کو بھی بلا لو۔ اگر تم سچے ہو (تو تمہیں یہ کام ضرور کر دکھانا چاہیے)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت اور وحی الٰہی کی صحت کی عقلی دلیل ہے۔ گویا فرمایا :” اے رسول کے ساتھ عناد رکھنے والو ! اس کی دعوت کو رد کرنے والو ! اور اسے جھوٹا سمجھنے والو ! اگر تم اس وحی کے بارے میں کسی شک و شبہ میں مبتلا ہو جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے کہ آیا یہ حق ہے یا نہیں تو یہاں ایک ایسا معاملہ موجود ہے جسے ہم تمہارے اور اس کے درمیان فیصلہ کن انداز میں بیان کرتے ہیں اور وہ یہ کہ وہ بھی تمہاری طرح بشر ہے کسی اور جنس سے نہیں، جب سے وہ پیدا ہوا ہے اس وقت سے تم اسے جانتے ہو وہ لکھ سکتا ہے نہ پڑھ سکتا ہے۔ اس نے تمہارے سامنے ایک کتاب پیش کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور تم کہتے ہو کہ اس نے اسے خود گھڑا ہے اور اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھا ہے۔ اگر معاملہ ایسے ہی ہے جیسے تم کہتے ہو تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ اور اپنے جن اعوان و انصار اور حمایتیوں کو اپنی مدد کے لئے بلا سکتے ہو بلا لو ! تمہارے لئے یہ کام بہت آسان اور معمولی ہے خاص طور پر جبکہ تم فصاحت و خطابت کے میدان کے شاہسوار ہو اور اس رسول کی عداوت میں بھی بہت آگے ہو۔ اگر تم نے اس کتاب جیسی ایک سورت بھی پیش کردی تو تم اس کتاب کو جھوٹ، بہتان کہنے میں حق بجانب ہو اور اگر تم اس جیسی ایک بھی سورت پیش نہ کرسکے اور اسے پیش کرنے سے مکمل طور پر عاجز آگئے تو تمہارا یہ عجز اور بے بسی رسول اور وحی الٰہی کی صداقت کی بڑی نشانی اور واضح دلیل ہے۔ پھر تم پر لازم ہوجاتا ہے کہ تم اس کی پیروی کرو اور اس آگ سے بچو جس کی گرمی اور حرارت اتنی زیادہ ہے کہ اس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے دنیاوی آگ کی مانند نہیں جسے (لکڑی کے) ایندھن سے بھڑکایا جاتا ہے۔ یہ بیان کردہ آگ اللہ اور اس کے رسول کا انکار کرنے والوں کے لئے تیار کی گئی ہے، اس لئے جب تمہیں یہ معلوم ہوگیا کہ یہ رسول برحق ہے تو اس کا انکار کرنے سے ڈرو۔ اس آیت اور اس قسم کی دیگر آیات کو آیات تحدی (مقابلہ کرنے کی دعوت دینے والی آیات) کہا جاتا ہے ” تحدی“ سے مراد ہے مخلوق کو قرآن جیسی کوئی کتاب پیش کرنے اور اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز کردینا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا﴾ (بنی اسرائیل 88؍17) ” کہو اگر تمام جن و انس اس بات پر جمع ہوجائیں کہ وہ اس جیسا قرآن بنا لائیں تو اس جیسا قرآن بنا کر نہیں لا سکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں۔“ پس مشت خاک سے بنے ہوئے انسان کا کلام رب الارباب کے کلام کی مانند کیسے ہوسکتا ہے؟ یا ناقص اور تمام پہلوؤں سے محتاج ہستی اس کامل ہستی کے کلام جیسا کلام کیسے پیش کرسکتی ہے جو تمام پہلوؤں سے کمال مطلق کی اور بے پایاں بے نیازی کی مالک ہے؟ یہ چیز دائرہ امکان اور انسانی بساط سے باہر ہے۔ ہر وہ شخص جو کلام کی مختلف اصناف کی تھوڑی بہت بھی معرفت رکھتا ہے جب قرآن کا اصحاب بلاغت کے کلام سے تقابل کرے گا تو اس پر ظاہر ہوجائے گا کہ دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ﴾ ” اگر تم شک میں مبتلا ہو۔“ میں اس بات کی دلیل ہے کہ جس کے لئے ہدایت کی توقع کی جاسکتی ہے یہ وہ شخص ہے جو شک میں مبتلا اور حیران و پریشان ہے۔ جو گمراہی میں سے حق کو نہیں پہچان سکتا۔ اگر وہ طلب حق میں سچا ہے تو اس کے لئے حق واضح ہوجانے کے بعد اس کا اتباع کرنا زیادہ مناسب ہے۔ وہ شخص جو حق کے ساتھ عناد رکھتا ہے اور حق کو پہچان کر بھی اسے ترک کردیتا ہے اس کے حق کی طرف رجوع کرنے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ اس نے حق کو اپنی جہالت کی وجہ سے ترک نہیں کیا بلکہ اس نے حق کو اس کے واضح ہوجانے کے بعد رد کیا ہے۔ اسی طرح وہ متشکک شخص جو تلاش حق میں سچا جذبہ نہیں رکھتا بلکہ وہ حق سے گریز کرتا ہے اور تلاش حق میں تگ و دو نہیں کرتا وہ اکثر و بیشتر قبول حق کی توفیق سے محروم رہتا ہے۔ اس مقام عظیم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصف عبدیت کو بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ عبدیت آپ کی سب سے بڑی صفت ہے۔ اس مقام بلند تک اولین و آخرین میں سے کوئی شخص بھی آپ کے مقام تک نہیں پہنچ سکا۔ جیسے معراج کے موقع پر آپ کی عبدیت کو بیان فرمایا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا﴾ (بنی اسرائیل :1؍17) ” پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے ایک حصے میں سفر کرایا۔ “ قرآن کی تنزیل کے وقت بھی آپ کی عبدیت کو بیان فرمایا : ﴿تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا ﴾ (الفرقان :1؍25) ” نہایت برکت والی ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تاکہ وہ تمام جہانوں کو ڈرائے۔ “