سورة البقرة - آیت 285

آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

رسول پر جو کچھ اس کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا، اس پر وہ خود بھی ایمان لایا اور سب مومن بھی ایمان لائے۔ یہ سب اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں [٤١٤] (اور کہتے ہیں کہ) ہم اللہ کے رسولوں میں سے کسی میں بھی تفریق نہیں کرتے۔ [٤١٥] نیز وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم نے اللہ کے احکام سنے اور ان کی اطاعت قبول کی۔ اے ہمارے پروردگار! ہم تیری مغفرت چاہتے ہیں اور ہمیں تیری طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔‘‘

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تعالیٰ رسولوں اور مومنوں کے ایمان، اطاعت اور طلب مغفرت کا ذکر فرماتا ہے کہ وہ لوگ اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس میں ان تمام صفات کمال و جلال پر ایمان لانا داخل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں بتائی ہیں اور رسولوں نے بتائی ہیں۔ ان پر اجمالاً اور تفصیلا ًایمان لانا داخل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں بتائی ہیں اور رسولوں نے بتائی ہیں۔ ان پر اجمالاً اور تفصیلاً ایمان رکھنا، اور اللہ کی ذات کو تشبیہ و تمثیل، تعطیل اور تمام صفات نقص سے پاک ماننا بھی شامل ہے۔ شریعتوں میں جن فرشتوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان سب پر اجمالاً اور تفصیلاً ایمان رکھنا، رسولوں کی بتائی ہوئی اور ان پر نازل ہونے والی کتابوں میں موجود تمام خبروں اور احکامات پر ایمان رکھنا بھی شامل ہے۔ مومن رسولوں میں تفریق نہیں کرتے، بلکہ تمام انبیاء و رسل پر ایمان رکھتے ہیں کیونکہ وہ اللہ اور بندوں کے درمیان واسطہ ہیں (جن کے ذریعے ہمیں اللہ کے اوامرو نواہی کا علم ہوتا ہے) لہٰذا کسی نبی کا انکار کرنا تمام نبیوں کا انکار کرنے کے مترادف ہے۔ ﴿وَقَالُوا سَمِعْنَا ﴾ ” انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا۔“ یعنی اے اللہ تو نے ہمیں جن کاموں کا حکم دیا ہے اور جن سے منع کیا ہے ہم نے انہیں توجہ سے سن لیا ہے ﴿وَأَطَعْنَا﴾ ” اور ہم نے اطاعت کی“ یہ تمام احکام تسلیم کرلیے۔ ان لوگوں میں شامل نہیں ہوئے جنہوں نے کہا تھا ﴿ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا ﴾ (البقرہ :2؍ 93) ” ہم نے سنا اور ہم نے نافرمانی کی۔“ کیونکہ بندے سے اللہ کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہو ہی جاتی ہے، لہٰذا اسے ہمیشہ اس کی مغفرت کی ضرورت رہتی ہے۔ اس لئے وہ کہتے ہیں ﴿غُفْرَانَكَ﴾ ” تیری بخشش“ یعنی ہم سے جو کوتاہی اور گناہ ہوئے ہیں، ہم تجھ سے ان کی بخشش طلب کرتے ہیں اور ہم جن عیوب میں ملوث ہوئے ہیں، ان گناہوں کو مٹا دینے کی درخواست کرتے ہیں۔ ﴿وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ ﴾ ” اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔“ یعنی تمام مخلوقات واپس تیرے پاس ہی پہنچیں گی۔ پھر تو ان کے اچھے اور برے اعمال کا بدلہ دے گا۔