قَالُوا سُبْحَانَكَ مَا كَانَ يَنبَغِي لَنَا أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِكَ مِنْ أَوْلِيَاءَ وَلَٰكِن مَّتَّعْتَهُمْ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ نَسُوا الذِّكْرَ وَكَانُوا قَوْمًا بُورًا
وہ کہیں گے'': تیری ذات پاک ہے ہماری مجال نہ تھی کہ تیرے سوا کسی کو کارساز [٢١] بناتے مگر تو نے انھیں اور ان کے آباء و اجداد کو خوب سامان زیست [٢٢] دیا۔ یہاں تک کہ وہ تیری یاد کو بھول گئے اور یہ لوگ تھے ہی ہلاک ہونے کے قابل۔
﴿ قَالُوا سُبْحَانَكَ ﴾ ” وہ کہیں گے، تو پاک ہے۔“ وہ اللہ تعالیٰ کو مشرکین کے شرک سے پاک گردانیں گے اور خود کو شرک سے بری الذمہ قرار دیتے ہوئے کہیں گے : ﴿ مَا كَانَ يَنبَغِي لَنَا ﴾ ” یہ ہماری شان کے لائق نہیں“ اور نہ ہم ایسا کر ہی سکتے ہیں کہ تیرے سوا کسی اور کو اپنا سر پرست، والی و مددگار بنائیں، اس کی عبادت کریں اور اپنی حاجتوں میں اس کو پکاریں۔ جب ہم تیری عبادت کرنے کے محتاج ہیں اور تیرے سوا کسی اور کی عبادت سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں تب ہم کسی کو اپنی عبادت کا کیسے حکم دے سکتے ہیں؟ ایسا نہیں ہوسکتا۔ تو پاک ہے ﴿ أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِكَ مِنْ أَوْلِيَاءَ ﴾ ” اس بات سے کہ ہم تیرے سوا کوئی دوست بنائیں۔“ ان کا یہ قول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قول کی مانند ہے : ﴿ وَإِذْ قَالَ اللّٰـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـٰهَيْنِ مِن دُونِ اللّٰـهِ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللّٰـهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ﴾ )المائدۃ:5؍117،116)” جب اللہ کہے گا اے عیسیٰ بن مریم ! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو ؟ حضرت عیسیٰ جواب دیں گے تو پاک ہے ! میری شان کے لائق نہیں کہ میں کوئی ایسی بات کہتا جس کا مجھے کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے کوئی ایسی بات کہی ہوتی تو وہ تیرے علم میں ہوتی کیونکہ جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو بات تیرے دل میں ہے میں اسے نہیں جانتا بے شک تو علام الغیوب ہے۔ تو نے جو مجھے حکم دیا تھا میں نے اس کے سوا انہیں کچھ نہیں کہا کہ تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا رب اور تمہارا رب ہے۔ “ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلَائِكَةِ أَهَـٰؤُلَاءِ إِيَّاكُمْ كَانُوا يَعْبُدُونَ قَالُوا سُبْحَانَكَ أَنتَ وَلِيُّنَا مِن دُونِهِم بَلْ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ أَكْثَرُهُم بِهِم مُّؤْمِنُونَ ﴾ )سبا : 34؍40،41) ” جس روز وہ ان سب کر اکٹھا کرے گا پھر فرشتوں سے کہے گا کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کیا کرتے تھے؟ تو وہ جواب میں عرض کریں گے تو پاک ہے، ان کو چھوڑ کر ہمارا ولی تو تو ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ ہمیری نہیں، بلکہ وہ جنوں کی عبادت کیا کرتے تھے اور ان میں سے اکثر انہیں کم منتے تھے۔“ اور فرمایا : ﴿ وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ ﴾ (الاحقاف :46؍6)” جب تمام لوگوں کو اکٹھا کیا جائے گا تو اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت کا انکار کردیں گے۔ “ جب انہوں نے اس بات سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیا کہ انہوں نے غیر اللہ کی عبادت کی طرف ان کو بلایا یا ان کو گمراہ کیا ہو۔ تو انہوں نے مشرکین کی گمراہی کا اصل سبب کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ﴿ وَلَـٰكِن مَّتَّعْتَهُمْ وَآبَاءَهُمْ ﴾ یعنی تو نے ان کو اور ان کے آباؤ اجداد کو دنیا کی لذات و شہوات اور اس کے دیگر مطالب سے فائدہ اٹھانے دیا ﴿ حَتَّىٰ نَسُوا الذِّكْرَ ﴾ ” یہاں تک کہ وہ نصیحت کو بھلا بیٹھے۔“ لذات دنیا میں مشغول اور اس کی شہوت میں مستغرق ہو کر۔ پس انہوں نے اپنی دنیا کی تو حفاظت کی، لیکن اپنے دین کو ضائع کردیا ﴿ وَكَانُوا قَوْمًا بُورًا ﴾ ” اور تھی وہ ہلاک ہی ہونے والی قوم۔“ (بَائِرِیْن) ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جن میں کوئی بھلائی نہ ہو وہ کسی اصلاح کی طرف راغب نہیں ہوتے اور وہ ہلاکت کے سوا کسی چیز کے لائق نہیں ہوتے۔ پس انہوں نے اس مانع کا ذکر کیا جس نے ان کو اتباع ہدایت سے روک دیا اور وہ ہے ان کا دنیا سے متمتع ہونا، جس نے ان کو راہ راست سے ہٹا دیا۔۔۔ پس ان کے لیے ہدایت کا تقاضا معدوم ہے یعنی ان کے اندر کوئی بھلائی نہیں جب تقاضا معدوم اور مانع موجود ہو تو آپ جو شر اور ہلاکت چاہیں وہ ان کے اندر دیکھ سکتے ہیں۔