تَبَارَكَ الَّذِي إِن شَاءَ جَعَلَ لَكَ خَيْرًا مِّن ذَٰلِكَ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَيَجْعَل لَّكَ قُصُورًا
وہ بڑی برکت والی ذات ہے۔ وہ چاہے تو آپ کو ان چیزوں سے بھی بہتر چیزیں دے سکتا ہے (ایک نہیں) کئی باغ جن میں نہریں جاری ہوں اور کئی محل دے سکتا ہے۔
اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ وہ آپ کو اس دنیا میں خیر کثیر سے نوازنے کی قدرت رکھتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ تَبَارَكَ الَّذِي إِن شَاءَ جَعَلَ لَكَ خَيْرًا مِّن ذٰلِكَ ﴾ ” بابرکت ہے وہ ذات جو اگر چاہے تو آپ کے لیے ان سے بہتر چیزیں کر دے۔“ یعنی ان چیزوں سے بھی بہتر جن کا انہوں نے ذکر کیا ہے پھر اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَيَجْعَل لَّكَ قُصُورًا ﴾ ” باغات جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں اور کردے وہ آپ کے لیے محلات۔“ یعنی بلند اور آراستہ محل۔ پس اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مشیت ایسا کرنے سے قاصر نہیں مگر، چونکہ دنیا اللہ تعالیٰ کے ہاں انتہائی حقیر چیز ہے، اس لیے وہ اپنے انبیاء و اولیاء کو صرف اتنی ہی دنیا عطا کرتا ہے جتنی حکمت اس کا تقاضا کرتی ہے اور ان کے دشمنوں کے اعتراضات کہ انہیں بہت زیادہ رزق سے کیوں نہیں نوازا گیا، محض ظلم اور جسارت ہے۔