وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَىٰ عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا
نیز وہ کہتے ہیں کہ یہ تو پہلے لوگوں کی داستانیں ہیں جنہیں اس نے نقل کرالیا ہے سو وہی داستانیں صبح و شام اس کے پاس پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔
ان کی ان باتوں میں سے ایک بات یہ ہے کہ یہ قرآن، جسے محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے ہیں ﴿ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا ﴾ یعنی یہ پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں جو لوگوں میں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں اور انہیں ہر شخص آگے بیان کردیتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ان کہانیوں کو سن کر لکھ لیا ہے۔ ﴿ فَهِيَ تُمْلَىٰ عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا ﴾ ’’پس وہ صبح و شام اس پر پڑھی جاتی ہیں۔‘‘ ان کی اس بات میں متعدد گناہ کی باتیں ہیں : (1) ان کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ اور عظیم جسارت کے ارتکاب کا بہتان لگانا، حالانکہ آپ لوگوں میں سب سے زیادہ نیک اور سچے ہیں۔ (2) قرآن کریم کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ جھوٹ اور افتراء ہے، حالانکہ یہ سب سے سچا، جلیل ترین اور عظیم ترین کلام ہے۔ (3) اس ضمن میں ان کا یہ دعویٰ کہ وہ ایسا کلام لانے کی قدرت رکھتے ہیں یعنی یہ مخلوق جو ہر پہلو سے ناقص ہے، خالق جو ہر لحاظ سے کامل ہے، کی ایک صفت یعنی صفت کلام میں اس کی برابری کرسکتی ہے؟ (4)رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احوال معلوم ہیں یہ آپ کے احوال کو سب سے زیادہ جانتے ہیں انہیں خوب معلوم ہے کہ آپ لکھ سکتے ہیں نہ آپ کسی ایسے شخص کے پاس جاتے ہیں جو آپ کو لکھ کر دے۔ اس کے باوجود وہ یہ کہتے ہیں کہ آپ یہ قصے کہانیاں کسی کے پاس سے لکھ لاتے ہیں۔ اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے اس قول کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ قُلْ أَنزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾ یعنی اس قرآن عظیم کو اس ہستی نے نازل کیا ہے جس کے علم نے زمین و آسمان کی ہر چیز کا، خواہ وہ غائب ہو یا سامنے ہو، چھپی ہوئی ہو یا ظاہر ہو۔۔۔ احاطہ کر رکھا ہے۔ جیسے اللہ کا ارشاد ہے : ﴿ وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ﴾ (الشعراء :26؍194۔192 ) ’’یہ رب العالمین کی طرف سے اتاری ہوئی چیز ہے۔ جسے لے کر روح الامین آپ کے دل پر اترا ہے تاکہ آپ ان لوگوں میں شامل ہوں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو ان کے انجام سے ڈرانے والے ہیں۔‘‘ اس میں ان پر حجت قائم کرنے کا پہلو یہ ہے کہ وہ ہستی، جس نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور جس کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے، اس کے بارے میں یہ محال اور ممتنع ہے کہ کوئی مخلوق یہ قرآن گھڑ کر اس کی طرف منسوب کر دے اور کہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے اور جو کوئی اس کی مخالفت کرے اس کی جان و مال کو مباح قرار دے دے اور دعویٰ کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے، بایں ہمہ وہ اس شخص کی اس کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد کرتا ہے، ان کی جانوں اور شہروں کو اس کے حوالے کردیتا ہے۔۔۔ پس اللہ تعالیٰ کے علم کا انکار کیے بغیر، کسی کے لیے اس قرآن کا انکار کرنا ممکن نہیں۔ بنی آدم میں سے سوائے دہرئیے فلاسفہ کے علم کا انکار کیے بغیر، کسی کے لیے اس قرآن کا انکار کرنا ممکن نہیں بنی آدم میں سے سوائے دہرئیے فلسفہ کے، کوئی ایسی بات نہیں کہتا۔