سورة النور - آیت 58

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۚ مِّن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ۚ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ ۚ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اے ایمان والو! تمہارے غلاموں اور ان لڑکوں پر جو ابھی حد بلوغ کو نہ پہنچے ہوں، لازم ہے کہ وہ (دن میں) تین بار اجازت لے کر گھروں میں داخل ہوا کریں۔ نماز فجر سے پہلے اور ظہر کے وقت جب تم کپڑے اتارتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد یہ تین اوقات تہارے لئے پردہ [٨٧] کے وقف ہیں۔ ان اوقات کے علاوہ (دوسرے وقتوں) میں ان کو بلا اجازت آنے جانے سے نہ ان پر کچھ گناہ ہے [٨٨] اور نہ تم پر، تمہیں ایک دوسرے کے پاس بار بار آنا ہی پڑتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اپنے ارشادات کی وضاحت کرتا ہے اور وہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ ان کے غلام اور نابالغ بچے اجازت طلب کر کے ان کے پاس آیا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی حکمت بیان کی ہے اور یہ کہ اجازت طلب کرنے والوں کے لئے پردے کے یہ تین اوقات ہیں۔ عشاء کی نماز کے بعد جب سونے کا وقت ہوتا ہے اور فجر کی نماز کے لئے بیدار ہونے سے پہلے۔ غالب حالات میں، رات کے وقت سونے والے نے معمول کے لباس کی بجائے شب خوابی کا لباس پہنا ہوتا ہے۔۔۔ البتہ دن کے وقت، قیلولہ وغیرہ میں انسان بسا اوقات اسی معمول کے لباس ہی میں ہوتا ہے۔ اس کو اپنے اس ارشاد کے ساتھ مقید کیا ہے۔ ﴿ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ ﴾ ’’دوپہر کے وقت جب تم (قیلولہ کے لئے) کپڑے اتارتے ہو۔‘‘ پس مذکورہ بالا تین اوقات میں تمہارے غلام اور چھوٹے بچوں کو دوسرے لوگوں کی مانند اجازت لئے بغیر داخل ہونے کی اجازت نہیں۔۔۔ ان تین اوقات کے علاوہ دیگر اوقات کے بارے میں فریاما : ﴿ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ ﴾ ’’نہیں ہے تم پر اور نہ ان پر کوئی گناہ ان اوقات کے بعد۔‘‘ یعنی یہ غلام اور بچے دوسروں کی مانند نہیں کیونکہ وہ ہمیشہ ان کے محتاج ہوتے ہیں اس لئے ان کا ہر وقت اجازت طلب کرتے رہنا ان کے لئے باعث تکلیف ہوگا۔ بنا بریں فرمایا : ﴿ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ﴾ یعنی تمہارے کام سر انجام دینے اور تمہاری ضروریات پوری کرنے کے لئے ان کا تمہارے پاس آنا جانا رہتا ہے۔ ﴿ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰـهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ﴾ وہ تاکید کے لئے اپنی آیات کو اپنی حکمت کے ساتھ مقرون بیان کرتا ہے تاکہ شارع کی رحمت اور اس کی حکمت کی معرفت حاصل ہو۔ اس لئے فرمایا : ﴿ وَاللّٰـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴾ ’’اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔‘‘ اس کا علم تمام واجبات و مستحبات اور تمام ممکنات کا احاطہ کئے ہوئے ہے، وہ اس حکمت کو بھی خوب جانتا ہے جس کی بنا پر ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھا گیا۔ پس ہر مخلوق کو وہی تخلیق عطا کی گئی ہے جو اس کے لائق ہے اور اس نے تمام شرعی احکام عطا کئے ہیں جو اسکے مناسب حال ہیں۔ یہ متذکرہ صدر احکام بھی انہیں میں سے ہیں جنہیں اس نے خوب کھول کھول کر بیان کیا ہے اور ان کے مآخذ کو اور ان کے حسن کو واضح کیا ہے۔