يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا [٣٢] دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ ان کی رضا [٣٣] حاصل نہ کرو اور گھر والوں پر سلام نہ کرلو۔ یہ بات تمہارے [٣٤] حق میں بہتر ہے توقع ہے کہ تم اسے یاد رکھو (اور اس پر عمل کرو) گے۔
اللہ باری تعالیٰ اپنے بندوں سے فرماتا ہے کہ وہ اپنے گھر کے سوا دوسرے گھروں میں اجازت لیے بغیر داخل نہ ہوا کریں، کیونکہ اس میں متعدد مفاسد ہیں : (1) جس کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” اجازت طلبی نظر پڑنے سے بچاؤ ہی کے لیے مقرر کی گئی ہے۔‘‘ [صحیح البخاری، الاستئذان، من اجل البصر، ح:6241وصحیح مسلم، الآداب،باب تحریم النظر فی بیت غیرہ،ح:2156] اجازت طلبی میں خلل واقع ہوجانے سے گھر کے اندر ستر پر نظر پڑتی ہے۔ کیونکہ گھر انسان کے لیے باہر کے لوگوں سے ستر اور پردہ ہے جیسے کپڑا جسم کو چھپاتا ہے۔ (2) اجازت طلب کئے بغیر گھر میں داخل ہونا، داخل ہونے والے کے بارے میں شک کا موجب ہے اور وہ برائی یعنی چوری وغیرہ سے متہم ہوتا ہے کیونکہ گھر میں خفیہ طور پر داخل ہونا شر پر دلالت کرتا ہے۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل ہونے سے منع کردیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اجازت طلب کرلیں۔ یہاں ( اِسْتئِذَان ) کو ( اسْتِئنَاس ) اس لیے کہا گیا ہے کہ اس سے انس حاصل ہوتا ہے اور اس کے معدوم ہونے سے وحشت حاصل ہوتی ہے۔ ﴿ وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ﴾ ” اور گھر میں رہنے والوں کو سلام کرو“ حدیث شریف میں اس کا یہ طریقہ بیان ہوا ہے کہ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے کہو : ” السلام علیکم ! اور پھر پوچھو، کیا میں اندر آجاؤں؟“ ﴿ ذَٰلِكُمْ ﴾ ” یعنی یہ مذکورہ اجازت طلبی ﴿ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴾ ” تمہارے لیے بہتر ہے، تاکہ تم نصیحت پکڑو۔“ کیونکہ اجازت طلبی متعدد مصالح پر مشتمل ہے اور اس کا شمار ایسے مکارم اخلاق میں ہوتا ہے جن کو اپنا نا واجب ہے۔ پس اگر گھر میں داخل ہونے کی اجازت دے دی جائے تو اجازت طلب کرنے والے کو داخل ہونا چاہیے۔