يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ وَمَن يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۚ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اے ایمان والو! شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ اور جو شخص شیطان کے قدموں پر چلے گا تو وہ تو بے حیائی [٢٤] اور برے کاموں کا ہی حکم دے گا۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی پاک صاف [٢٥] نہ رہ سکتا تھا۔ مگر اللہ جسے چاہے پاک سیرت [٢٦] بنا دیتا ہے اور اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
چنانچہ فرمایا : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ﴾ ” اے ایمان والو ! شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو۔“ یعنی اس کے طریقوں اور اس کے وسوسوں کی پیروی نہ کرو۔ ( خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ )’’شیطان کے نقش قدم“ میں وہ تمام گناہ داخل ہیں جو قلب، زبان اور بدن سے متعلق ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے تمہارے سامنے حکم واضح کیا اور وہ شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرنے سے ممانعت ہے۔ اور حکمت ممنوع شدہ چیز میں جو شر ہے اس کے بیان کو کہتے ہیں جو اسے ترک کرنے کا تقاضا کرتا ہے اور اس کا داعی ہے۔ فرمایا : ﴿ وَمَن يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ ﴾ ” اور جو پیروی کرتا ہے شیطان کے قدموں کی، تو بے شک وہ“ یعنی شیطان ﴿ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ ﴾ ” حکم دیتا ہے فحشاء کا۔“ (فحشائ) سے مراد وہ بڑے بڑے گناہ ہیں جن کو ان کی طرف بعض نفوس کے میلان کے باوجود شریعت اور عقل برا سمجھتی ہے۔ ﴿وَالْمُنكَرِ ﴾ ” اور منکر کا“ اور (منکر) وہ گناہ ہیں جن کا عقل انکار کرتی ہے۔ پس تمام گناہ جو شیطان کے نقوس پا ہیں وہ اس صفت سے باہر نہیں نکلتے، اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنے بندوں کو ان گناہوں کے ارتکاب سے روکنا ان پر اس کی نعمت کا فیضان ہے وہ اس کا شکر ادا کریں اور اس کا ذکر کریں کیونکہ یہ ممانعت رذائل اور قبائح کی گندگی سے ان کی حفاظت ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ان پر احسان ہے کہ اس نے بندوں کو گناہوں کے ارتکاب سے روکا جس طرح اس نے ان کو زہر قاتل وغیرہ کھانے سے روکا ہے۔ ﴿ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰـهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا ﴾ ” اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی، تو تم میں سے کوئی بھی کبھی بھی پاک نہ ہوتا۔“ یعنی تم میں سے کوئی بھی شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرنے سے کبھی نہیں بچ سکتا کیونکہ شیطان اور اس کے لشکر بندوں کو اپنے نقش قد کی پیروی کرنے کی دعوت دیتے رہتے ہیں اور گناہوں کو ان کے سامنے مزین کرتے رہتے ہیں اور نفس کی حالت تو یہ ہے کہ ہمیشہ برائی کی طرف مائل رہتا ہے، بندے کو برائی کے ارتکاب کا حکم دیتا رہتا ہے اور نقص ہر جہت سے بندے پر غالب ہے اور ایمان قوی نہیں ہے اگر بندے کو ان داعیوں کے حوالے کردیا جائے تو کوئی شخص بھی گناہوں اور برائیوں سے بچ کر اور نیکیوں کے اکتساب کے ذریعے سے پاک نہیں ہوسکتا کیونکہ ” تزکیہ“ طہارت اور بڑھاؤ کا متضمن ہے۔ تم میں سے جس کسی نے اپنا تزکیہ کرلیا تو اس کے موجب اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت ہیں۔ نبی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے : (( اللَّهُمَّ اٰتِ نَفْسِي تَقْوَاهَا وَزَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا)) [صحیح مسلم، الذکر والدعاء، باب فی الأدعیة،ح:2722 وسنن نسائی،الاستعاذة،باب الاستعاذة من العجز،ح:542]” اے اللہ ! میرے نفس کو تقویٰ عطا کر، اسے پاک کر، تو سب سے اچھا پاک کرنے والا ہے۔ تو اس کا والی اور مولا ہے۔ “ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَلَـٰكِنَّ اللّٰـهَ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ ﴾ ” اور لیکن اللہ پاک کرتا ہے جس کو چاہتا ہے۔“ ہے اسی لیے فرمایا ﴿ وَاللّٰـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴾ اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔ “