سورة المؤمنون - آیت 75

وَلَوْ رَحِمْنَاهُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِهِم مِّن ضُرٍّ لَّلَجُّوا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اگر ہم ان پر مہربانی کریں اور ان کی تکلیف کو دور کردیں تو یہ اپنی سرکشی میں اور زیادہ بہکتے جائیں گے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ ان کے شدید تمرد کا بیان ہے کہ جب ان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس کو دور کرنے کی دعا مانگتے ہیں تاکہ وہ ایمان لے آئیں یا اللہ تعالیٰ ان کو آزمائش میں مبتلا کرتا ہے، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور اللہ تعالیٰ جب ان کی تکلیف دور کردیتا ہے تو پھر سرکشی اختیار کرلیتے ہیں اور ہمیشہ اپنی سرکشی میں سرگرداں اور اپنے کفر میں متردد اور حیرت زدہ رہتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کشتی میں سوار ہونے کے وقت ان کا حال بیان کیا ہے کہ اس وقت وہ دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے پکارتے ہیں اور ان ہستیوں کو بھول جاتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے اور جب اللہ تعالیٰ ان کو اس صورت سے نجات دیتا ہے تو پھر زمین میں شرک کرتے ہوئے بغاوت کا رویہ اختیار کرلیتے ہیں۔