سورة المؤمنون - آیت 73

وَإِنَّكَ لَتَدْعُوهُمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور بلاشبہ آپ انہیں [٧٥] سیدھی راہ کی طرف بلاتے ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں ان تمام اسباب کا ذکر کیا ہے جو ایمان کے موجب ہیں اسی طرح تمام موانع ایمان کا ذکر کیا ہے اور فرداً فرداً ان کے فساد کو واضح کیا ہے۔ پس موانع ایمان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ منکرین حق کے دل غفلت اور جہالت میں ڈوبے ہوئے ہیں، انہوں نے قرآن میں غورو فکر نہیں کیا، وہ اپنے آباء واجداد کی تقلید پر جمے ہوئے ہیں اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ انہیں جنون لاحق ہے جیسا کہ گزشتہ صفحات میں اس کا ذکر ہوچکا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان امور کا بھی ذکر کیا، جو موجب ایمان ہیں اور وہ ہیں قرآن میں تدبر کرنا، اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو قبول کرنا، رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احوال اور آپ کے کمال صدق و امانت کی معرفت حاصل کرنا، نیز یہ کہ آپ ان سے کسی قسم کے اجرو صلہ کے طلب گار نہیں آپ کی کوشش تو صرف لوگوں کے فائدے اور مصالح کے لیے ہے اور جس راستے کی طرف آپ لوگوں کو دعوت دیتے ہیں وہ سیدھا راستہ ہے۔ سیدھا ہونے کی بنا پر تمام لوگوں کے لیے نہایت آسان اور منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے قریب ترین راستہ ہے۔ نرمی اور آسانی پر مبنی دین حنیف ہے، یعنی توحید میں حنیفیت اور اعمال میں آسانی۔