سورة المؤمنون - آیت 18

وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ ۖ وَإِنَّا عَلَىٰ ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

نیز ہم نے آسمان سے ایک خاص مقدار [٢٠] میں پانی اتارا جسے ہم نے زمین میں ٹھہرا دیا اور بلاشبہ ہم اس کو لے جانے [٢١] پر بھی قادر ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً ﴾ ’’اور اتارا ہم نے آسمان سے پانی‘‘ تاکہ تمہارے لئے اور تمہارے مویشیوں کے لئے بقدر کفایت رزق حاصل ہو۔ پس وہ اسے اتنا کم بھی نہیں کرتا کہ جس سے زمین اور درختوں کی ضرورت پوری نہ ہو اور مقصود حاصل نہ ہو اور نہ اسے اتنا زیادہ کرتا ہے کہ جس سے آبادیاں تلف ہوجائیں اور نباتات اور درخت اس کے ساتھ زندہ نہ رہیں بلکہ جب اس کو نازل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے نازل کرتا ہے اور جب اس کے زیادہ برسنے سے نقصان کا خدشہ ہوتا ہے تو اسے روک دیتا ہے۔ ﴿ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ ﴾ ’’پس ہم اس کو زمین میں ٹھہرا دیتے ہیں۔‘‘ یعنی ہم پانی کو زمین پر نازل کرتے ہیں اور وہ وہاں ٹھہر جاتا ہے اور اپنے نازل کرنے والے کی قدرت سے، ہر قسم کی نباتات اگاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے دور زیر زمین پانی کے خزانوں تک لے جا کر ٹھہراتا ہے حتی ٰ کہ کنواں کھودنے والا اس کی گہرائیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ ﴿ وَإِنَّا عَلَىٰ ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ ﴾ ’’اور ہم اس کے لے جانے پر قادر ہیں۔‘‘ اس طرح کہ یا تو ہم اسے نازل ہی نہ کریں یا نازل تو کریں لیکن اسے اتنا گہرا لے جائیں کہ وہاں تک پہنچنا ممکن نہ ہو یا اس سے مقصد حاصل نہ ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کو تنبیہ ہے کہ وہ اس کی نعمت کا شکر ادا کریں اور اس کے معدوم ہونے پر اندازہ کریں کہ انہیں کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَن يَأْتِيكُم بِمَاءٍ مَّعِينٍ ﴾ )الملک :67؍30، کہہ دیجئے کہ کیا تم نے سوچا اگر تمہارا پانی گہرا چلا جائے یعنی خشک ہوجائے تو کون ہے جو تمہارے لئے پانی کا چشمہ بہا لائے۔