سورة المؤمنون - آیت 17

وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَائِقَ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور ہم نے تمہارے اوپر سات [١٨] طبقے (آسمانوں کے) پیدا کئے ہیں اور ہم اپنی مخلوق [١٩] سے غافل نہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد، اس کے مسکن اور اس پر ہر لحاظ سے اپنی بے پایاں نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ ﴾ ’’اور بنائے ہم نے تمہارے اوپر‘‘ یعنی شہروں کی چھت کے طور پر اور بندوں کے فائدے کی خاطر ﴿ سَبْعَ طَرَائِقَ ﴾ ہم نے سات آسمان طبق برطبق بنائے کہ ہر طبقے کے اوپر دوسرا طبقہ ہے۔ اور ان کو سورج، چاند اور ستاروں کے ذریعے سے سجایا اور ان میں مخلوق کے تمام فوائد و دیعت کئے گئے۔ ﴿ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِينَ ﴾ ’’اور ہم مخلوق سے غافل نہیں ہیں۔‘‘ پس جیسے ہماری تخلیق ہر مخلوق کے لئے عام ہے۔ اسی طرح ہمارا علم بھی تمام مخلوق پر محیط ہے، ہم اپنی کسی مخلوق سے غافل ہیں نہ اسے بھولتے ہیں اور نہ کسی مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد اسے ضائع کرتے ہیں، نہ آسمان سے غافل ہوتے ہیں کہ وہ زمین پر گر پڑے اور نہ سمندروں کی موجوں میں تیرتے ہوئے اور صحراؤں میں پڑے ہوئے ایک ذرے کو بھی فراموش کرتے ہیں۔ کوئی ایسا جان دار نہیں جس کو ہم رزق نہ پہنچاتے ہوں۔ ﴿ وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللّٰـهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ﴾ (ھو د:11؍6) ’’زمین میں چلنے والا کوئی ایسا جاندار نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کہاں اس کا ٹھکانہ ہے اور کہاں اسے سونپا جانا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے بہت کثرت سے اپنی تخلیق اور اپنے علم کو اکٹھا بیان کیا ہے، مثلاً فرمایا : ﴿ أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ﴾ (الملک : 67؍14) ’’کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا ہے، حالانکہ وہ پوشیدہ باتوں کو جاننے والا اور ہر چیز سے آگاہ ہے۔‘‘ نیز فرمایا : ﴿ بَلَىٰ وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ ﴾ (یٰس : 36؍81) ’’کیوں نہیں ! جبکہ وہ پیدا کرنے والا اور علم رکھنے والا ہے۔‘‘ کیونکہ مخلوقات کی تخلیق، ان کے خالق کے علم اور حکمت پر سب سے بڑی عقلی دلیل ہے۔