وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي ۖ قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا ۚ وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور جب (حضرت) ابراہیم نے کہا تھا کہ : اے میرے پروردگار! مجھے دکھلا دے کہ تو ''مردوں کو کیسے زندہ کرے گا'' اللہ تعالیٰ نے پوچھا : ''کیا تجھے اس کا یقین [٣٧٤] نہیں؟'' ابراہیم نے جواب دیا : ''کیوں نہیں! لیکن میں اپنے دل کا اطمینان چاہتا ہوں۔'' اللہ تعالیٰ نے فرمایا : '' اچھا تو چار پرندے لو اور انہیں اپنے ساتھ مانوس کرلو۔ پھر ان کا ایک ایک جز ایک ایک پہاڑ [٣٧٥] پر رکھ دو۔ پھر انہیں پکارو، وہ تمہارے پاس دوڑتے چلے آئیں گے اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب اور حکمت والا ہے
یہ بھی ایک عظیم اور محسوس دلیل ہے، جس سے اللہ کی قدرت ظاہر ہوتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ وہ فوت شدہ لوگوں کو جزا و سزا دینے کے لئے زندہ فرمائے گا۔ اللہ نے اپنے خلیل ابراہیم کے بارے میں خبر دی ہے کہ انہوں نے اللہ سے درخواست کی کہ انہیں مردوں کو زندہ ہوتا آنکھوں سے دکھا دیا جائے۔ آپ کو اللہ کے بتانے سے اس کا یقین تو حاصل ہوچکا تھا، لیکن آپ کی خواہش تھی کہ اس کا بچشم سر مشاہدہ فرما لیں تاکہ انہیں حق الیقین کا مقام حاصل ہوجائے۔ اس لئے اللہ نے انہیں فرمایا﴿ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَـٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي﴾” کیا تمہیں ایمان نہیں؟ جواب دیا : ایمان تو ہے، لیکن میرے دل کی تسکین ہوجائے گی۔“ اس کی وجہ یہ ہے کہ یقینی دلائل یکے بعد دیگرے آنے سے ایمان تو ہے، لیکن میرے دل کی تسکین ہوجائے گی۔“ اس کی وجہ یہ ہے کہ یقینی دلائل یکے بعد دیگرے آنے سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور یقین کامل ہوجاتا ہے۔ اہل عرفان اسی کے حصول کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ اس کے رب نے اسے فرمایا ﴿ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ﴾ یعنی چار پرندے لے کر اکٹھے کرلے۔ تاکہ سب کچھ آپ کی آنکھوں کے سامنے واقع ہو اور آپ کے ہاتھوں سے اس کا مشاہدہ کرایا جائے۔ ﴿ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا﴾” پھر ہر پہاڑ پر ان کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دو۔“ یعنی ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ان کے اجزا کو باہم ملا دو اور قریب پہاڑوں میں سے ہر پہاڑ پر ان کا ایک حصہ رکھ دو۔ ﴿ ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا ۚ﴾” پھر انہیں پکارو، تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آجائیں گے۔“ یعنی انہیں مکمل زندگی حاصل ہوجائے گی۔ تو وہ پوری قوت سے دوڑتے ہوئے اور تیزی سے اڑتے ہوئے آپ کے پاس آجائیں گے۔ ابراہیم نے ایسے ہی کیا، تو انہیں مردوں کے زندہ ہونے کا مطلوبہ مشاہدہ حاصل ہوگیا اور یہ معاملہ بھی (مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) ” آسمانوں اور زمین کی سلطنت“ میں شامل ہے جس کا ذکر اس آیت مبارکہ میں ہے: ﴿وَكَذَٰلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ﴾(الا نعام : 6؍ 75) ” اور ہم نے ایسے ہی طور پر ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات دکھائیں اور تاکہ وہ کامل یقین کرنے والوں میں سے ہوجائیں۔“ اس کے بعد فرمایا ﴿ وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾ ” اور جان رکھو کہ اللہ غالب ہے حکمتوں والا۔“ یعنی عظیم قوتوں والا ہے، جس سے اس نے مخلوقات کو مسخر کر رکھا ہے۔ کوئی مخلوق اس کے حکم سے سرتابی نہیں کرسکتی۔ بلکہ سب کی سب اس کی عظمت کے آگے سرنگوں اور اس کے جلال کے سامنے جھکی ہوئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ا س کے افعال اس کی حکمت کے تابع ہیں۔ وہ کوئی کام بے مقصد نہیں کرتا۔