سورة الأنبياء - آیت 36

وَإِذَا رَآكَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِن يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهَٰذَا الَّذِي يَذْكُرُ آلِهَتَكُمْ وَهُم بِذِكْرِ الرَّحْمَٰنِ هُمْ كَافِرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جب کافر آپ کو دیکھتے ہیں تو بس مذاق ہی اڑاتے ہیں (کہتے ہیں) کیا یہی وہ شخص ہو جو تمہارے معبودوں کا ذکر کیا کرتا ہے؟'' جبکہ وہ خود رحمٰن [٣٤] کے ذکر کے منکر ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ ان کے کفر کی شدت کی طرف اشارہ ہے۔ مشرکین جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تمسخر اڑاتے اور کہتے ﴿ أَهَـٰذَا الَّذِي يَذْكُرُ آلِهَتَكُمْ ﴾ یعنی ان کے زعم کے مطابق یہی ہے جو تمہارے معبودں کی تحقیر کرتا ہے، ان کو سب و شتم اور ان کی مذمت کرتا ہے اور ان کی برائیاں بیان کرتا ہے اس کی پیروی کرو نہ اس کی طرف دھیان دو۔۔۔۔ یہ سب کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ان کا استہزاء اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تحقیر ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات کمال شمار ہوتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ اکمل افضل ہستی ہیں جس کے فضائل و مکارم میں اخلاص اللہ، غیر اللہ کی عبادت مذمت اور عبادت کے اصل مقام و مرتبہ کا ذکر شامل ہے۔ ذلت و استہزاء تو ان کفار کے لئے ہے جن میں ہر قسم کے مذموم اخلاق جمع ہیں۔ اگر ان میں صرف یہی عیب ہوتا کہ انہوں نے رب کریم کے ساتھ کفر کیا اور اس کے رسولوں کا انکار کیا تو اس کی وجہ ہی سے وہ مخلوق میں سب سے زیادہ گھٹیا اور رذیل ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کا رحمٰن کا ذکر کرنا، جو ان کا بلند ترین حال ہے، اس کے ساتھ کفر کرنے والے ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں یا اس پر ایمان لاتے ہیں تو اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں، اس لئے جب ان کا ذکر کفر اور شرک ہے تو اس کے بعد ان کے دیگر احوال کیسے ہوں گے ؟ اس لئے فرمایا: ﴿وَهُم بِذِكْرِ الرَّحْمَـٰنِ هُمْ كَافِرُونَ﴾ ” اور وہ رحمٰن کے ذکر کے منکر ہیں“۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک( الرحمٰن) کا ذکر کرنے میں ان کے حال کی قباحت کا بیان ہے، نیز یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ وہ رحمٰن کا کیسے کفر اور شرک کے ساتھ سامنا کرتے ہیں، حالانکہ وہ تمام نعمتیں عطا کرنے والا اور مصائب کو دور کرنے والا ہے، بندوں کے پاس جتنی نعمتیں ہیں وہ اسی کی طرف سے ہیں اور تمام تکلیف کو صرف وہی رفع کرتا ہے۔